Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

1 - 11
بولتے حقائق مجرم کون مسٹریاملا؟
بولتے حقائق مجرم کون مسٹریاملا؟ الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ
کچھ عرصے سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور دنیا کو ا ن سے متنفر کرنے کے لئے باقاعدہ مہم اور منصوبے کے تحت مختلف ہتھگنڈے اور حربے استعمال کئے جارہے ہیں ۔
چونکہ اسلام اور مسلمانوں کے نمائندے علماء ،دینی مدارس اور ان میں پڑھنے والے طلباء ہیں، اس لئے اسلام او ر مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے بجائے مدارس ،طلباء اور علماء کرام پر طعن و تشنیع کے نشتر برسائے جاتے ہیں، انہیں منہ بھر کرگالیاں دی جاتی ہیں اوران کو دنیا جہاں کی تمام برائیوں اورشرارتوں کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
چنانچہ کبھی انہیں ملک دشمن کہا جاتا ہے تو کبھی امن امان کا مخالف ،کبھی انہیں ملکی ترقی کی راہ میں حارج قرار دیا جاتا ہے تو کبھی دہشت گرد ،کبھی انہیں فسادی کہا جاتا ہے تو کبھی شرارتی، کبھی انہیں تشدد پسند کہا جاتا ہے تو کبھی ملک اور قوم کے باغی۔غرض اس وقت طعن و تشنیع اور توہین و تضحیک کی تمام توپوں کا رخ ملا،مولوی،دینی مدارس اورطالبان (طلبہ )کی طرف ہے ،دوسری طرف یہ مظلوم، بھری دنیا میں بے یارو مددگاراکیلے مخالفت کی بادِ سموم کے تھپیڑے برداشت کرنے اورہرقسم کی تنقید وتنقیص سننے او ر سہنے کے لئے موجود ہیں ۔
صرف یہی نہیں!بلکہ اب تو نوبت بایں جا رسید کہ قریب قریب پوری قوم کوذہنی طور پر اس کے لئے تیار کر لیا گیا ہے کہ اگر ملکی سلامتی اور امن و امان در کا ر ہے توان” شرارتیوں“ سے جان چھڑانی ہوگی اور ان کے خلاف منظم جد جہد کرنی ہوگی ، چنانچہ اس ناپاک منصوبہ کو پروان چڑھا نے کے لئے کسی مسجد ،مدرسہ اور علمی مرکز پر بمباری کرکے ان معصوموں کو خاک و خون میں تڑپایا جاتاہے اوراس کے بعد بیان جاری کردیاجاتاہے کہ:” اس جگہ مظلوم انسانوں کو ذبح کیا جاتا تھا، یا یہا ں جہادی تربیت کا مرکز اور اسلحہ کا ذخیرہ تھاوغیرہ وغیرہ۔“
اسی طرح کہیں دھماکا کرکے یہ کہا نی گھڑ لی جاتی ہے کہ:” یہ طالبان کا اڈہ تھا اور یہاں بارود کا ذخیرہ تھا جوقبل از وقت پھٹ گیا“چنانچہ میاں چنوں کے ماسٹرریاض کے مکان میں بم دھماکہ کو مدرسہ میں دھماکہ قرار دینا،اس کاواضح ثبوت ہے ،جب کہ اس کے برعکس وفاق المدارس کی قیادت چلاچلاکرکہہ رہی ہے کہ یہ سب کچھ مدارس کوبدنام کرنے کی سازش ہے،چنانچہ وفاق المدارس کے اکابر کی مبنی بر حقیقت وضاحت ملاحظہ ہو:
”اسلام آباد (نمائندہ جنگ) میاں چنوں کے جس مکان میں دھماکہ ہو ا وہ کوئی مدرسہ نہیں،بلکہ حاضر سروس اسکول ٹیچر ماسٹر ریاض کا مکان تھا۔سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردی کے ہر واقعے کا ملبہ مدارس پر ڈال کر درسگاہوں کو بدنام کیا جارہا ہے جو افسوس ناک ہے ۔میڈیا اس سازش کو ناکام بنائے ۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے علماء و مشائخ کے ایک نمائندہ وفد نے دار العلوم کبیر والا کے استاذ الحدیث حضرت مولانا حامد حسن کی سربراہی میں جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور مرکز کو اطلاع دی کہ اس واقعے کو سراسر غلط رپورٹ کیا گیا، وہا ں کوئی مدرسہ نہیں، بلکہ ایک حاضرسروس اسکول ٹیچر ماسٹر ریاض کا گھر تھا، جس میں اس کی بہن محلے کے چند بچوں کو پڑھایا کرتی تھی۔ اس سے قبل اس اسکول ٹیچر کی مشکوک سرگرمیوں کی پولیس کو اطلاع دی گئی، وہ گرفتار بھی ہوا، لیکن پولیس نے پیسے لیکر چھوڑ دیا۔ وفاق المدا رس العربیہ پاکستان کے راہنما مولانا سلیم اللہ خان ، قاری محمد حنیف جالندھری ، مفتی محمد رفیع عثمانی ،ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے کہا کہ اس واقعہ میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مدارس کو بد نام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔“ (روزنامہ جنگ کراچی۔۱۵جولائی ۲۰۰۹ء)
اسی طرح ڈیرہ غازیخان کی ایک خالی حویلی پر راتوں رات مدرسہ کا بورڈ لگانا اور رات کی تاریکی کافائدہ اٹھاتے ہوئے اس میں اسلحہ رکھنے کے بعد اس پر” چھاپہ“ مار کراس سے اسلحہ کی برآمدگی کی خبر بھی مدارس کوبدنام کرنے اوران کے خلاف باقاعدہ سازش کے مترادف ہے، لیجیے! اس سلسلہ کی صحیح صورت حال بھی ملاحظہ فرمائیے:
”اسلام آباد(ثناء نیوز) وفاق المدار س العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جرنل اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ترجمان قاری محمد حنیف جالندہری نے کہا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کی ایک ویران حویلی سے اسلحہ برآمد کرکے اسے مدرسہ قرار دیکر جنوبی پنچاب اور مدارس کے خلاف آپریشن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،انہوں نے مدرسہ سے اسلحہ برآمدگی کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا،مدارس کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری کی ہدایت پر گزشتہ روز ڈیرہ غازی خان میں وفاق المدارس کے نمائندے مفتی خالد محمود کی قیادت میں مبینہ مدرسہ کا دورہ کیاگیا، جہاں سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وفد کی جانب سے وفاق المدار س العربیہ کے ذمہ داران کو بھجوائی گئی رپورٹ کے مطابق جس مقام سے اسلحہ برآمد کیا گیا، وہاں ایک ویران حویلی ہے ،باقاعدہ کوئی مدرسہ نہیں، نہ وہاں کوئی طلباء زیر تعلیم ہیں، بلکہ ایک ویران جگہ ہے“ (روزنامہ جنگ کراچی،۱۳ جولائی ۲۰۰۹ء) ایسے حالات میں جبکہ ہر طرف ان بے یارومددگارمظلوموں اورمسکینوں کے خلاف چڑھائی اور حملہ کابگل بجایاجارہا ہے، کچھ حقیقت بین ایسے بھی ہیں جو حقائق سے پردہ اُٹھانے سے نہیں ہچکچاتے،چنانچہ ایک ایسا شخص جو کسی اعتبار سے ملا، مولوی اور طالبان نہیں کہلا سکتا ، اس کی شہادت قابل قبول ہونی چاہیے۔
لیجئے! روزنامہ امت کے کالم نگار ریٹائرڈ لفٹنٹ کر نل جناب عادل اختر کی چشم کشااور حقائق آشنا تحریر پڑھیے اور فیصلہ فرمائیے کہ”مجر م کون،ملا یا مسٹر“۔” ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی“کے مصداق اس پر ہم کسی قسم کا کوئی اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے،چنانچہ موصوف تحریر فرماتے ہیں:
”۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کی صبح ناشاد تھی ۔ مقام ڈھاکہ کا میدان جنگ ۔ ناظر یہ راقم کمترین۔( اس وقت ایک لفٹین) آسمان سے آگ برس رہی تھی… اور زمین سے خون کے چشمے ابل رہے تھے کہ اچانک بڑی کمانڈ پوسٹ سے ایک حیران کن آرڈر آیا ” ہندوستانی جہازوں پر فائرنگ نہ کی جائے“ اس کے بعد کنفیوز کردینے والے احکامات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ دوپہر تک ساری رجمنٹ کو ایک مرکزی مقام پر جمع ہو نے کا آرڈر آگیا ، کسی کو کچھ معلوم نہ تھا ،کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا ہونے والا ہے،ہرطرف ایک کنفیوژن کا عالم تھا۔ جلد ہی صبح ناشاد، شام غم میں بدل گئی۔
اس واقعے کو چالیس برس ہو نے کو آئے ،گو حکمرانوں کا سرپُر غرور خاک میں مل گیا ، پر ر عونت وہی باقی ہے اور عوام میں بھی کنفیوژن کا وہی عالم ہے،صوبے،صوبوں سے دست و گریباں ہیں ،طبقے ،طبقوں سے نالاں ہیں، ہر طبقہ پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار دوسرے طبقے کو ٹھہرارہا ہے۔(کم ظرفوں میں ایسا ہی ہو تا ہے ) ملک میں پانی ہے نہ پیٹرول ،البتہ گرانی اور سرگردانی ہیں کہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے،سیاستدان ؟ فوجی حکمران؟ یا بیورو کریٹ؟ یا اجتماعی شعور و بصیرت کی کمی؟۔
اس افراتفری اور شور قیامت میں ایک طبقہ ملک کی ناکامی کی ذمہ داری ملاوٴں پر ڈال رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ایک دن بھی ملاوٴں کی حکومت نہیں رہی ۔دس گیارہ برس ایک نیم ملا فوجی ڈکٹیٹر ضرور ملک پر قابض رہا ، اس ڈکٹیٹر کے آنے یا جانے میں ملاوٴں کا کوئی دخل نہیں تھا، اس لئے اسے ملاوٴں کی حکومت نہیں کہا جاسکتا ،اس کے علاوہ پاپائیت کی مانند ، اسلام میں ملائیت نام کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ نہ کبھی سارے ملا، مولوی، کسی مسئلے پر متفق ہوئے ہیں۔ فکری مسائل پر ہر طبقے میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہ عین فطری بات ہے۔
برصغیر کے ملاوٴں پر ایک سنگین الزام یہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی، آج ان ملاوٴں کا دفاع غداری کے زمرے میں آسکتا ہے، اور ہاتھوں کے علاوہ سر بھی قلم ہو سکتا ہے، بہرحال اس وقت کے ملاوٴں کا موٴقف اصولی تھا، وہ کہتے تھی: آپ تو کشور حسین میں بیٹھ کر عیش کریں گے، جو کروڑوں مظلوم و مردود مسلمان بھارت میں رہ جائیں گے ،ان کا ولی وارث کون ہو گا؟ وہ تاقیامت بے بسی کی دلدل میں اترتے چلے جائیں گے۔ ان کی زندگی میں کبھی صبح امید نہیں آئے گی،ان ملا وٴں کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ تحریک پاکستان میں شامل ہو جانے والے ہزاروں کھوٹے سکے ناقابل اعتبار ہیں ، ان سکوں سے خیر کی کوئی امید نہیں، یہی ہوا۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد انہوں نے کھل کھیلنا شروع کردیا ، ملک میں سازشیں اور چھینا جھپٹی شروع ہو گئی، اول تو ملک میںآ ئین بننے نہیں دیا گیا اور جب آئین بن گیا تو اسے جلد ہی قتل کردیا گیا، جو لوگ حکمران بنے، وہ نہ تو اللہ کا قانون( قرآن) ماننے کے روادار تھے نہ انسان کابنایاہواقانون (آئین)ماننے کے لئے تیار تھے ، ان طالع آزماوٴں کی حماقتوں کے نتیجے میں قائد اعظم کا پاکستان دو نیم ہوگیا ، لاکھوں انسان قتل ہو ئے، کروڑوں بے گھر اور ایک لاکھ افراد دشمن کی قید میں چلے گئے ، قائد اعظم کی روح پر قیامت گزر گئی ہو گی۔کمروں میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے والے دانشور اس کرب کا ،اس ذلت و اذیت کا احساس ہی نہیں کرسکتے ، جو اس آگ کے دریا سے گزرنے والوں پر بیت گئی۔
ملاوٴں پر الزام ہے کہ وہ ہمیشہ ظالم حاکم کی حمایت کرتے ہیں، عرض ہے کہ ملاوٴں نے حاکموں کی حمایت اپنی انفرادی حیثیت میں کی ہے ،بہ حیثیت جماعت یا ادارے کے ملا وٴں نے کبھی کسی حاکم کی حمایت نہیں کی، ہزاروں ملا ظالم حکمرانوں کے درباروں میں چٹان کی طرح باوقار انداز سے کھڑے رہے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ،امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، مجدد الف ثانی رحمہ اللہ …مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمہ اللہ،حافظ ضامن شہید رحمہ اللہ،حاجی امداداللہ مہاجرمکی رحمہ اللہ،شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ،اور شیخ الاسلام مولاناشبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ،مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، امیرشریعت مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ․․․․․ناقل۔ کا سر ہمیشہ بلند اور سخن دلنواز رہا ۔
پاکستان میں حاکموں کی حمایت کرنے والوں میں جاگیر دار، جج، جرنیل، جرنلسٹ، اساتذہ کرام ، تاجر ، دانشور ہمیشہ پیش پیش رہے اور ظل الہٰی سے اس کا پورا پورا معاوضہ وصول کرتے رہے ،آج انصاف اور سائینٹیفک تحقیق کا تقاضا ہے کہ ملک کے پانچ دس ہزار روٴسائے اعظم کی فہرست بنائی جائے اور دیکھا جائے اس میں ملا کتنے ہیں ؟اور مسٹر کتنے ؟اگر یہ مشکل ہو تو چک شہزاد میں عطاء کئے جانے والے ۴۹۹ فارم ہاوٴسوں کے مالکان کے نام جو اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں، دیکھ لئے جائیں کہ ان میں ملا کتنے ؟اور مسٹر کتنے ہیں؟ عوام کو بتایا جائے، ملا مودودی نے کس قدرجائیداد چھوڑی اور پرویز مشرف نے کس قدر دولت بٹوری۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں دہلی کے رہنے والے تھے)…
تحقیق اور انصاف سے دلچسپی رکھنے والوں سے التماس ہے کہ وہ کچھ مشہور ملاوٴں: مثلاََ حسرت موہانی، ابو الکلام آزاد، حسین احمد مدنی ،حسین احمد قاضی،حافظ حسین احمد، احمدعلی لاہوری ،سرفراز احمد نعیمی …اگر اس کے ساتھ ساتھ مفتی کفایت اللہ،مولانامحمود حسن دیوبندی ،مولانامحمدقاسم نانوتوی،مولاناغلام غوث ہزاروی،مولانامفتی محمود،مولانامحمدعبداللہ درخواستی ،مولانامحمدبہلوی،مولاناسید محمدانورشاہ کشمیری،مولاناخلیفہ غلام محمد دین پوری،مولاناسیدمحمدیوسف بنوری، شیخ الاسلام مولاناشبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ ،مولاناظفر احمدعثمانی رحمہم اللہ وغیرہ کے نام بھی شامل کردیے جائیں تونامناسب نہ ہوگا․․․․ناقل ۔کی دولت و جائیداد کی تفصیلات حاصل کریں اور پرویز مشرف اور موجودہ حکومتی و سیاسی رہنماوٴں کی دولت سے موازنہ کریں، پھر انصاف سے بتائیں کہ پاکستان پر حکومت کس نے کی؟ دولت کس نے بٹوری؟۔
ملاوٴں پر ایک الزام اور بھی ہے کہ ان کا پسندیدہ نظام ملوکیت ہے اور وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔(کیا اقتدار پر قبضے کی کوششیں جنرلز نہیں کرتے؟)عرض یہ ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی نظام کی حمایت یا مخالفت کرسکتا ہے ، اس وقت ہندوستان اور پاکستان میں جس قدر مذہبی پارٹیاں سیاست میں حصہ لے رہی ہیں، وہ ملک کے آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں اور جمہوریت کی حامی ہیں(ورنہ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملتی) پاکستان کی کسی مذہبی جماعت نے کبھی تشدد کی حمایت نہیں کی ،پر امن مقاصد سے اپنے مشن اور مقصد کا حصول ہر سیاسی پارٹی کا آئینی حق ہے۔ کوئی جرم نہیں ۔ البتہ غیر ملا پارٹیوں میں نہ کبھی الیکشن ہو تے ہیں، نہ فنڈز کا حساب رکھا جاتا ہے۔ برصغیر میں باہر سے آنے والی قوموں نے اقتدار اور اختیار پر قبضہ کرکے یہاں کے رہنے والی قدیم اور پسماندہ اقوام کا استحصال کیا ،آریا ، مغل ،عرب، ترک ، ایرانی اور انگریز… آج بھی پاکستان پر ایک استحصالی طبقہ قابض ہے، ضرورت پڑنے پر یہ لوگ فوراََ چولا بدل لیتے ہیں ، ان کا کوئی دین و مذہب نہیں ، اس طبقے کے لوگ ہر نظام کے خلاف ہیں، اسلام ، کمیونزم ،سوشلزم، سیکولرازم…
کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب اور تمام نظام ، استحصال کے خلاف ہیں، کسی بھی نظام کی کامیابی کی صورت میں استحصالی ٹولے کی لوٹ مار کا خاتمہ ہو جائے گا، اس طبقے کی ظلم وستم کی داستانیں کبھی کبھار اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، ورنہ عام طور پر عوام کی نظروں سے چُھپی رہتی ہیں۔ ان طبقات کی داستانیں پڑھ کر حیرت ہو تی ہے کہ انسان کس قدر گرسکتا ہے؟
پاکستان میں اس طبقے کے بنائے ہوئے عالیشان محلات دیکھ لیجئے ، ہر محل ایک قلعہ ہے، باہر لوہے کا جنگلہ ،اندر جنگلی کتے غرارہے ہیں ،مسلح چوکیدار گشت کررہے ہیں، سیکورٹی کیمرے نصب ہیں ،فرار ہونے کے لئے ہیلی پیڈ ہیں اورڈوب مرنے کے لئے سو ئمنگ پول۔
اخباری قیاس آرائیوں کے مطابق اس طبقے کے پاس ناجائز ذرائع سے جمع کئے ہوئے بارہ ہزار ارب روپے موجود ہیں، اتنے روپے حکومت کے پاس بھی نہیں ہیں ،اس رقم کو بینک کی اصطلاح میں کالا دھن کہتے ہیں، بیرون ممالک ان لوگوں کے پاس ساٹھ ستر ارب ڈالرز کے اثاثے موجود ہیں، اس طبقے کی عیاشیوں کی داستانوں پر عام طورپر پردہ پڑا رہتا ہے، بیرون ممالک جا کر بہتریں مہنگے ترین ہو ٹلوں میں قیام و طعام، مہنگے ترین اسٹوروں میں شاپنگ ، جوئے خانوں، نائٹ کلب اور عیاشی کے اڈوں پر ”حاضری “کبھی کبھار تیز ہوا چلتی ہے تو کچھ دیر کے لئے پردہ ہٹ جاتا ہے اور ان کے کالے کرتوت نظر آجاتے ہیں ،جو لوگ حق اور سچ کے متلا شی ہیں وہ تحقیق کرکے دیکھ لیں،ان لوگوں میں ملا کتنے ہیں، مسٹر کتنے؟ نوٹ:اس مضمون میں علماء کرام کی جگہ ملا کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا گیاہے، کیونکہ جو حضرات اسلام کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے مصلحتاََ علماء کرام یا اسلام کی جگہ لفظ ملا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس میں حقارت کا عنصر شامل ہو تا ہے۔
کچھ دانشور ملا کو ملعون و مطعون قرار دے کر مسرت محسوس کرتے ہیں ،ملا اپنے دفاع میں اور کیا کہہ سکتے ہیں، سوائے اس کے کہ :
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات انہیں بہت گراں گزری ہے
جب تک ملا وٴں کی جان میں جان باقی ہے، یہ تزئین درو بام کرتے رہیں گے،حق پسند قاری خود دیکھ لیں، ملا کے پاس کتنا مال ہے؟ اور غیر ملاوٴں کے پاس کس قدر؟
ملا وٴں کی سب سے اچھی خدمت یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے ملک میں میرٹ اور انصاف کی حکومت ہو۔“(روزنامہ امت کراچی،۱۶جولائی ۲۰۰۹ء)
مکررعرض ہے کہ یہ تحریر کسی ملا،مولوی، یاکسی دینی مدرسہ کے پڑھے لکھے” تنگ نظر“ کی نہیں، بلکہ یہ ایک ریٹائرڈ فوجی کی آپ بیتی ہے جو۱۹۷۱ء کی جنگ میں خود شریک تھااوراس نے وہ سارامنظر بچشم خوددیکھا،جس کے دیکھنے اورسننے کی ہما رے” بڑے“ بھی تاب لانے سے قاصر ہیں۔
ہاں!ہاں یہ تحریرایک غیرجانبدار تجزیہ نگاری ہے ،جویقینا مسجد،مدرسہ،ملا،مولوی اور دین دار طبقہ کے مخالفین کے خلاف حجت قاطعہ ہے۔خداکرے کہ اس کے ذریعے ہمارے معصوم قارئین کے دل ودماغ میں ڈالی گئی غلط فہمیاں دورہوجائیں۔ اور وہ اس بین الاقوامی سازش کاادراک کرسکیں۔واللّٰہ یقول الحق وھو یہدی السبیل
وصلی اللّٰہ تعالی علی خیرخلقہ سیدنامحمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter