Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

1 - 9
الحاد و زندقہ کا نیا انداز !
الحاد و زندقہ کا نیا انداز!

الحمدللّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
چند دن قبل روزنامہ امت کراچی کے کالم نگار جناب کاشف حفیظ صاحب ہمارے دوست جناب الحاج خورشید احمد صاحب کی معیت میں دفتر ختم نبوت تشریف لائے، علیک سلیک، تعارف اور ابتدائی بات چیت کے بعد انہوں نے اپنی تخلیقات کا سیٹ عنایت فرمایا، ملکی و بین الاقوامی حالات، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور سیدھے سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوششوں اور خفیہ تدبیروں پر بات چل نکلی تو انہوں نے ایک ویزیٹنگ کارڈ اور مطبوعہ پرچہ بنام ”کَلا مُکَ کما لُکَ“آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا :کہ میرے بڑے بھائی صاحب ڈاکٹر ہیں، ان کی کلینک پر ایک صاحب آئے اور انہوں نے اپنا تعارفی کارڈ اور یہ پرچہ دے کر کہا کہ میں ڈاکٹر کیپٹن محمد ضیااللہ خان، ثنا کلینک کے نام سے منیب میڈیکل کمپلکس چیپل گارڈن ابوالحسن اصفہانی روڈ کراچی میں مطب کرتا ہوں، یہ میرا کارڈ ہے، اس کے ساتھ ہی کہا کہ نبیل میرا بیٹا ہے جو پیدائشی طور پر جسمانی معذور اور خود سے چلنے، پھرنے، اور کھانے پینے سے قاصر ہے اور اس پر گاہ بگاہ دورہ کی کیفیت طاری ہوتی ہے ، اس پر جب دورہ کی کیفیت ہوتی ہے تو وہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے، ان میں سے چند ایک اس پرچہ میں درج ہیں۔
جناب کاشف حفیظ صاحب نے بتلایا کہ میرے بھائی صاحب نے پرچہ پڑھا تو پریشان ہوگئے، گھر آکر انہوں نے یہ پرچہ اور ویزیٹنگ کارڈ مجھے تھماتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو یہ کون آدمی ہے؟ اس کے کیا عقائد و نظریات ہیں؟ اور یہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ جب تک کاشف حفیظ صاحب اس کارڈ اور پرچہ کا پس منظر بتاتے رہے، میں اس پرچہ کو پڑھتا رہا، اُدھر ان کی بات پوری ہوئی، اِدھر میں نے وہ پورا پرچہ پڑھ لیا بلکہ اس کی تمام قابل اعتراض باتوں کو انڈر لائن کرتے ہوئے عرض کیا: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص قادیانی ہے اور قادیانی عقائد و نظریات کا داعی، مناد اور پرچارک ہے۔ البتہ اس نے قادیانی عقائد و نظریات کے زہر کو ہلکا کرنے، ان سے نفرت، بیزاری اور توحش کو کم کرنے، سیدھے سادے مسلمانوں کو دھوکا دینے اور انہیں گمراہ کرنے کے لئے کسی قدر جدید، انوکھی اور نئی شکل اپنانے کی کوشش ہے۔
راقم نے ابھی تک اس پرچہ پر کچھ لکھنا شروع نہیں کیا تھا کہ دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی جانب سے اس پرچہ میں درج کلام اور اس کی ویب سائٹ سے ماخوذ پرنٹ پر مشتمل کئی صفحات کا پلندہ بھیج کر اس کی طرف متوجہ کیا گیا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ اور اس کے عقائد و نظریات کیا ہیں؟ چنانچہ اس پلندہ کو دیکھا، تو اس میں، اردو کے علاوہ انگلش میں بھی قادیانی عقائد و نظریات کی تبلیغ پر مشتمل خاصا مواد تھا، اسی طرح اسی ویب سائٹ سے ایک اور مواد بھی ملا جس میں ”مہدی کون؟“ کے عنوان سے منتشر انداز میں وہ سب کچھ درج تھا جو ”کَلا مُکَ کما لُکَ“ کے اندر یکجا اور مرتب انداز میں تھا، خاص طور پر اس میں: ”اگر یہ کلام الٰہی نہیں تو اور کیا ہے؟“ بہت ہی خطرناک اور بدبودار مواد ہے۔
اس پلندہ کی خواندگی ابھی مکمل نہیں کی تھی کہ جامعہ درویشیہ سندھی مسلم سوسائٹی کراچی کے مدیر جناب مولانا لیاقت علی شاہ صاحب تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میرے پاس ایک صاحب کسی شخص کی جانب سے ایک پرچہ لائے اور اس میں درج غلیظ کلمات کو دیکھ کر میں نے اس پرچہ میں دی گئی ویب سائٹ پر جاکر اس کے بارہ میں معلومات شروع کیں تو وہ شخص مجھے قادیانی لگا، کیونکہ اس میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بدبودار عقائد و نظریات کی بھرمار تھی، چنانچہ میں نے ایک کمپیوٹر ماہر سے رجوع کرکے اس فائل میں سے چند اقتباسات کے فوٹو لے کر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دارالافتاء بھجوائے ہیں، یقینا آپ تک بھی اس کی اطلاع پہنچی ہوگی، میں نے عرض کیا :جی ہاں! وہ سارا پلندہ مجھ تک پہنچ چکا ہے ، اس پر انہوں نے بتلایا کہ جب میں اس ویب سائٹ پر گیا تو اندازہ ہوا کہ یہ شخص سیدھے سادے مسلمانوں اور بھولے بھالے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک معذور بچے کے نام سے دھوکا دے رہا ہے اور قادیانی عقائد و نظریات کو عجیب و غریب انداز سے مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتارنے کی ناپاک کوشش کررہا ہے۔
یہ بھی انہوں نے بتلایا کہ کمپیوٹر پر چیٹنگ کرنے والے نوجوان جب اس ویب سائٹ کی ویزٹ کرتے ہیں اور اس ویب سائٹ کو چلانے والے ڈاکٹر کیپٹن ضیا اللہ سے بات چیت کرتے ہیں، تو وہ ان کو معذور بچے کے دورہ کی کیفیت کے نام سے ان عقائد و نظریات کو کراماتی اور معجزاتی انداز میں پیش کرکے ان کو سچا ماننے اور ان پر ایمان لانے کی تلقین کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ویب سائٹ کی ویزٹ کرنے والوں سے اپنی ویب سائٹ اور ان عقائد و نظریات کے بارہ میں رائے بھی مانگتا ہے، چنانچہ ناواقف و لاعلم نوجوان بعض اوقات سادگی کی بنا پراس کے بارہ میں اچھے تاثرات کا اظہار کردیتے ہیں تو وہ اس کو اپنی حقانیت و صداقت کی دلیل قرار دیتے ہوئے اسے بھی ویب سائٹ کا حصہ بنا دیتا ہے۔ اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس پرچہ اور اس کی ویب سائٹ کے فوٹو میں موجود عقائد و نظریات اور اس کے ذمہ دار کے عقائد و نظریات کے بارہ میں کسی قدر تفصیل سے عرض کردیا جائے :
اس سے پہلے کہ اس معذور بچے کی آڑ میں ”روپ محمد“ نامی ویب سائٹ اور ”کَلا مُکَ کما لُکَ“ نامی پرچہ میں درج عقائد و نظریات کا تجزیہ کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ضیاء اللہ نے اپنے معذوربیٹے نبیل اور اپنے تعارف کے بارہ میں جو کچھ لکھا ہے، ذیل میں اس کا خلاصہ انہیں کے الفاظ میں درج کردیا جائے، لیجئے پڑھئے اور سر دھنیے:
”تعارف:... میں وہ تمام تفصیلات پیش کررہا ہوں کہ کس طرح سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں دوبارہ تشریف آوری ممکن ہوئی اور کس طرح اللہ کے پیغامات آنا شروع ہوئے… میں ان پیغامات میں کسی قسم کی ردوبدل کا اختیار نہیں رکھتا، البتہ مجھے یہ اجازت دی گئی ہے کہ میں وقتی طور پر کوئی بات مخفی رکھ سکتا ہوں… یہ تمام واقعات میرے بیٹے نبیل کی وجہ سے ہوئے ہیں جو معذور اور بے شک معصوم ہے…سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دوبارہ اس دنیا میں تشریف آوری کیسے ہوئی یہ ایک لمبی داستان ہے جس کو میں نے مختصراً تحریر کیا ہے اور کلام پاک کو ”کَلامُکَ کما لُکَ“ کا عنوان دیا ہے، کیونکہ اصل کلام پاک میں اعراب اور نقطے نہیں ہوتے، اس لئے اس کو سمجھنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ اسباب:... ۱۲/اگست ۱۹۹۲ء کا دن تھا… میرے دوسرے بیٹے نے اس دنیا میں اپنا پہلا قدم رکھا ،اس کا نام نبیل تجویز کیا گیا، سانولی رنگت معمولی شکل و صورت کے حامل اس بچے میں سوائے دو بڑی پُرکشش آنکھوں کے اور کوئی خاص بات نہ تھی…ہم نے محسوس کیا کہ نبیل کو دودھ پینے اور سانس لینے میں دقت ہوتی ہے…چیک اپ کرانے پر معلوم ہوا کہ گلے کے غدود بڑھے ہوئے ہیں، آپریشن ضروری تھا جس کے بعد نبیل کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا… جب نبیل ایک سال کا ہوا تو اس کو کھڑا ہونے میں مشکل پیش آنے لگی، اول تو وہ کھڑا ہونے کی کوشش ہی نہ کرتا اور اگر کرتا تو گر جاتا، جس کی وجہ ٹانگوں کی کمزوری سمجھی گئی، اس لئے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کئی سال لگ گئے، اب کھڑا ہونا ممکن ہوا تو توازن برقرار رکھنا ممکن نہ تھا، گرنا اور چوٹ لگنا اب روز کا معمول بن گیا اور ہر وقت کا رونا نبیل کا مقدر…میں نے اس دور کے مشہور و معروف بزرگوں کے آستانوں پر حاضری دینا شروع کی… کسی مہربان نے مجھے شاہ عقیق کے مزار پر جانے کو کہا…عیدالفطر کی چھٹیوں میں ۲۰۰۲ء میں وہاں جانے کا فیصلہ کیا…ہر ماہ باقاعدگی سے حاضری دینا شروع کی… البتہ ایک بار انوکھا واقعہ ہمارے ساتھ ضرور پیش آیا، جسے شاید معجزے کے زمرے میں لیا جاسکے…نبیل نے بے خیالی میں اپنے ایک ہاتھ کی انگلی دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر رگڑی کہ اچانک اس کے کانوں میں حضرت شاہ عقیق کی آواز آئی جو نبیل سے مخاطب تھے، اس نے دوبارہ انگلی رگڑی تو اس بار حضرت شاہ عقیق کے بڑے بھائی حضرت شاہ موسیٰ مخاطب تھے، نبیل نے اپنے چہرے پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ مجھے بتایا کہ میں ا پنی انگلی کو ہتھیلی پر رگڑنے سے کسی بھی صوفی بزرگ سے بات کرسکتا ہوں، یہ تو میرا ٹیلی فون ہے ،وہ خوشی سے چلایا، مجھے تجسس پیدا ہوا ،میں نے نبیل سے کہا کہ ذرا دوبارہ ویسا کرو، اس نے وہی عمل دہرایا، اس بار حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، پھر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے نبیل سے بات کی ․․․․ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی جب سرور کائنات، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیل سے بات کی…آخری چند مہینوں میں میں نے نبیل میں ایک اور بات محسوس کی اور وہ یہ تھی کہ اس نے مجھے بتایا کہ مجھے عجیب آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، بقول اس کے کوئی میرا نام لے کر مجھے بلاتا ہے… یہ آوازیں وقتاً فوقتاً آتی رہیں اور آج تک آتی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وقفہ زیادہ ہوگیا ہے لیکن دورانیہ بڑھ گیا ہے، نبیل بھی اس آواز سے مانوس ہوچکا ہے اور یہ آواز اب ہمارے لئے بھی راز نہیں رہی… حیرت کی بات یہ تھی کہ نبیل سارا دن بالکل نارمل رہتا… رات کے بارہ بجے نبیل کی طبیعت بگڑنا شروع ہوجاتی، جس کا دورانیہ دو گھنٹہ ہی ہوتا… غوث پاک ہمارے ساتھ تقریباً دو ماہ تک رہے… ہمیں یقین نہ آتا تھا کہ ایک شخص جو انتہائی مہلک بیماری میں مبتلا ہو وہ نہ صرف صحت یاب ہوگا بلکہ اسے خاص مقام بھی حاصل ہوگا ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟… اس کے باوجود مجھے یقین نہ تھا کہ میرا بیٹا اس موذی مرض سے چھٹکارا پالے گا، غوث پاک بھی صرف اردو میں بات کرتے، آپ برابر آتے رہے اور ہم ان سے مختلف موضوعات پر باتیں کرتے… سب سے پہلے نبیل کے بدن میں بے چینی شروع ہوتی پھر اس کے بدن کو کوئی ان دیکھی طاقت جھٹکے دیتی اور آخر میں الٹیاں کرائی جاتیں، الٹیوں کی خاص بات یہ تھی کہ جتنی کہی جاتیں اتنی ہی کرائی جاتیں ،نہ کم نہ زیادہ… نبیل کو شاید اندرونی و بیرونی طور پر پاک کرنے کا انتظام ہورہا تھا… ان معاملات میں ایک خوبصورت موڑ اس وقت آیا جب ایک دن غوث پاک نے ہمیں یہ کہہ کر حیرت میں ڈال دیا کہ ابھی کچھ ہی دیر میں سرور کائنات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لانے والے ہیں… آقا دو جہاں محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آج وہ اللہ کی محبوب ہستی ہمارے درمیان موجود تھی… یہ اللہ کا معجزہ تھا جو ہماری نظروں کے سامنے رونما ہورہا تھا… ۱۷/ رمضان المبارک غالباً ۱۲/ نومبر ۲۰۰۳ء کی رات تھی… اب میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ گناہگار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سالہا سال رہنے کا شرف حاصل ہوا… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی برابر تشریف لارہے ہیں، آپ کے آنے کے بعد ہمارے رہن سہن میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں، ہم گھر والوں پر کئی پابندیاں عائد ہوچکی ہیں…ان ہی دنوں میں نبیل کی عبادات کا آغاز ہوا جس میں روزے ،نماز، تلاوت قرآن پاک اور تسبیحات وغیرہ شامل ہیں… نبیل کو قرآن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا… بہت سے لوگوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، سب لوگ بے حد متاثر ہوئے اور اس معاملے کی سچائی کی گواہی دی… علمائے دین سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ اس نہایت ہی اہم معاملے کا کوئی حل تلاش کیا جاسکے، چنانچہ میں بالترتیب علامہ حسن حقانی، مفتی منیب الرحمن اور مفتی اطہر نعیمی سے ملا… انہیں اس معاملے سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی میری بات سننے کا ان کے پاس وقت تھا، ہم باپ بیٹوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت توہین آمیز تھا، اس لئے ان کے کوچے سے ہمیں بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا اور ایسے بدمزاج اور بداخلاق علماء سے مل کر میرے اعتماد کو بہت ٹھیس پہنچی جن کی ہم اندھی تقلید کرتے تھے، پہلے ان علماء کے متعلق بہت اچھے نظریات رکھتا تھا لیکن ملاقات کے بعد میرا نظریہ یکسر تبدیل ہوچکا تھا … انہوں نے مجھے موقع ہی نہ دیا کہ میں انہیں بتاتا کہ نبیل کے پاس بہت اہم پیغامات ہیں جو ہمیں کسی بھی قیمت پر لوگوں تک پہنچانے ہیں …لیکن یہاں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نیا روپ دیکھ رہا تھا اور یہ روپِ محمد ایسا تھا جس میں آپ اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائے، آپ بھی اردو میں گفتگو کرتے ہیں، میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو کچھ بھی میرے گھر میں ہورہا تھا، اس میں میرا یا میرے گھر والوں کا کوئی اختیار نہ تھا…جو جو واقعات بھی رونما ہورہے تھے میری معلومات کے مطابق وہ اسلام کے بنیادی عقائد سے بالکل مختلف تھے، جب میں نے اپنے ان خدشات کا اظہار آپ کے سامنے کیا تو آپ نے مجھ سے چند سوالات پوچھے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱:… کیا تم اللہ پر یقین رکھتے ہو؟
۲:… کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ کے لئے کچھ ناممکن نہیں؟
۳:… کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ مُردوں کو زندہ کرسکتا ہے؟
۴:… کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ مجھے دوبارہ بھیجنے پر قدرت رکھتا ہے؟
۵:… کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ نبیل کو شفایاب کرسکتا ہے؟
میں کسی بھی سوال کا انکار کرنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا، اس لئے میں نے کہا کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اب یہی سوال میں لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ وہ اپنے علم اور عقیدے کے مطابق اس کا جواب دیں…جس دن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں معجزات اب ایک معمول بن چکے ہیں، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ نبیل کا بے جان اور بے حرکت ہاتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس طرح خودبخود حرکت میں آتا ہے اور پیغامات لکھے جاتے ہیں…نبیل کی عمر اس وقت ۱۶ سال ہے، معذوری انتہا کی ہے، ہر وقت بستر پر رہتا ہے، جسم کی کوئی حرکت ممکن نہیں ، خود سے کھا اور پی بھی نہیں سکتا، جسم کے جوڑ مستقل طور پر مر چکے ہیں، کمر ٹیڑھی ہوچکی ہے اور پٹھے بالکل بے جان ہیں، البتہ نبیل ذہنی طور پر بالکل نارمل ہے اور کسی قسم کی دماغی کمزوری نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے (ڈی ایم ڈی) کی بیماری ہے لیکن پھر بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ نبیل ایک دن شانِ قدرت سے صحت یاب ہوجائے گا… نبیل کی عبادات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی آج کل بھی جاری ہیں، جو کمرہ حضرت غوث پاک نے بطور بیٹھک منتخب کیا تھا وہ اب چلہ رسول پاک میں تبدیل ہوگیا ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر اپنی عبادات میں مشغول رہتے ہیں، اس سے ملحقہ کمرے کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم ہوا، جس کا نام مسجد رسول پاک تجویز کیا گیا، جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں، ایک چھوٹی سی جگہ جو چلہ رسول پاک کے داخلی دروازے کے پاس ہے ،اسے نبیل کی عبادت گاہ یعنی چلہ بنادیا گیا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں پر پیغامات لکھے جاتے ہیں، ان مقامات کو مقدس بتایا گیاہے…یہ وہ ناقابل یقین حقیقت ہے جسے میں نے پیش کردیا ہے، میں نے ابھی کچھ راز افشا کئے ہیں جبکہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھانا ابھی باقی ہے جو انشاء اللہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔ جو کچھ میں نے لکھا اس کی مطابقت سے دستاویزی ثبوت پیش خدمت ہیں، جس میں نبیل کی میڈیکل رپورٹس، چند پیغامات، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے لکھی گئیں کچھ سورة اور نبیل کی تصاویر وغیرہ شامل ہیں ، پیغامات اپنی ذات میں خود ایک دلیل رکھتے ہیں، اس لئے ان کے بارے میں لب کشائی میرے لئے ممکن نہیں… جو لوگ اسے من گھڑت داستان یا پھر کسی دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں انہیں اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ اگر یہ کلام الٰہی نہیں تو پھر کیا ہے؟ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس تمام معاملے میں میری طرف سے نہ کوئی دعویٰ ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا، مجھے امید ہے کہ تمام لوگ میرا نقطہ نظر سمجھتے ہوئے مجھ پر الزام لگانے سے گریز کریں گے، یہ میں بھی جانتا ہوں کہ دین مکمل ہوچکا، اب کوئی نبی نہیں آئے گا ، کوئی وحی نہیں آئے گی، کوئی اللہ کا پیغام نہیں آئے گا، لیکن اگر پھر بھی آئے تو کیا کیا جائے؟“
(www.rupemuhammad.zomshare.com/album/Mehdi%20Kaun/images/a6212c8b7ad9db9e0...) مندرجہ بالا ”تعارف“و ”اسباب“اور ان میں اٹھائے گئے نکات، ابحاث، عقائد اور نظریات، کسی دوسرے کے نہیں، چشم بددور!اس معذور بچے نبیل کے والد کیپٹن ڈاکٹر ضیاء اللہ خان کی اپنی تحریر کے اقتباسات ہیں، جو خود انہیں کے الفاظ میں ہیں، ہم نے ان میں صرف اتنا سا تصرف کیا ہے کہ موصوف کی تحریر کے غیر ضروری حصے حذف کرتے ہوئے، ضروری اقتباس نقل کرکے متعلقہ اقتباسات کے بیچ میں نقطے لگادیئے ہیں، نیز ان تمام اقتباسات میں کوئی جملہ اورفقرہ ادھورایا ناقص نقل نہیں کیاگیا، تاکہ یہ نہ کہا جاسکے کہ نقل میں خیانت کی گئی ہے، یا کسی جملہ کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔
اس ضروری وضاحت کے بعد قارئین بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ تعارف کا مواد کس قدر خطرناک ہے؟ اور اس کا مرتب ڈاکٹر ضیاء اللہ خان کن غلیظ عقائد و نظریات کا حامل، داعی اور مناد ہے؟
اس کا بھی قارئین ہی فیصلہ فرماویں کہ کیا کوئی باغیرت مسلمان اور دین دار انسان ان اقتباسات اور ان میں قرآن و سنت اور دین و شریعت سے متصادم عقائد، نظریات، دل آزار ہفوات اور خار اشگاف مضامین پڑھ کر اپنے دینی، ملی اور مذہبی جذبات کو کنٹرول کرسکتا ہے؟ یا وہ عقیدہ ختم نبوت کے خلاف اس بغاوت و عدوان کو برداشت کرسکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا کہا جائے کہ اس موذی شخص کے فکری الحاد اور زندقہ کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے؟ اور اس کا تعاقب نہ کیا جائے؟ اور سیدھے سادے مسلمانوں کو ان کے زہریلے منصوبہ سے آگاہ نہ کرایا جائے؟
کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں؟ جس کے ذریعے ایسے بدباطنوں کے منہ میں لگام اور ناک میں نکیل ڈالی جاسکے؟ دیکھا جائے تویہاں ہر چوڑھے چمار کی عزت و ناموس کوتحفظ دیاجاتا ہے، اس کے برعکس اگر کسی کی عزت و ناموس کو تحفظ نہیں تو وہ صرف اور صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی ہے،آخر کیوں؟
افسوس، صد افسوس! کہ یہاں ہر آدمی کے دین و مذہب، حتی کہ ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں اور پارسیوں تک کے دین و دھرم کو تحفظ حاصل ہے چنانچہ کسی کو جرأت نہیں کہ وہ اپنے خود تراشیدہ افکار کو عیسائیت، یہودیت، ہندومت اور پارسیت کا نام دے سکے، آخر اسلام اور پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کا دین و مذہب ہی ایسا لاوارث کیوں ہے کہ ہر کس و ناکس اس کی اہانت و توہین کرنے اور اس کو بھنبھوڑنے کے درپے ہے؟
آپ ہی بتلائیں کہ جو شخص اس قسم کے دعوے کرے ،کیا وہ مسلمان ہے؟ کیا اس کا قرآن و سنت اور دین و شریعت پر ایمان ہے؟ نہیں، قطعاً نہیں، بہرحال اس شاطر نے اپنی اس تحریر میں جو کچھ کہا اور لکھا ہے اس کے اپنے الفاظ میں اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
الف:… ” ․․․اور کلام پاک کو ”کَلا مُکَ کما لُکَ“ کا عنوان دیا ہے، کیونکہ اصل کلام پاک میں اعراب اور نقطے نہیں ہوتے، اس لئے اس کو سمجھنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔“
ب:… ”میرے پاس پیغامات آتے ہیں اور ”میں ان پیغامات میں کسی قسم کی ردوبدل کا اختیار نہیں رکھتا، البتہ مجھے یہ اجازت دی گئی ہے کہ میں وقتی طور پر کوئی بات مخفی رکھ سکتا ہوں۔“
ج:…” سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دوبارہ اس دنیا میں تشریف آوری کیسے ہوئی؟ یہ ایک لمبی داستان ہے۔“
د:… ”البتہ ایک بار انوکھا واقعہ ہمارے ساتھ ضرور پیش آیا، جسے شاید معجزے کے زمرے میں لیا جاسکے۔“
ہ:… ”نبیل نے ...مجھے بتایا کہ میں اپنی انگلی کو ہتھیلی پر رگڑنے سے کسی بھی صوفی بزرگ سے بات کرسکتا ہوں...۔“
و:… ”سب سے پہلے نبیل کے بدن میں بے چینی شروع ہوتی پھر اس کے بدن کو کوئی ان دیکھی طاقت جھٹکے دیتی اور آخر میں الٹیاں کرائی جاتیں، الٹیوں کی خاص بات یہ تھی کہ جتنی کہی جاتیں اتنی ہی کرائی جاتیں، نہ کم نہ زیادہ...نبیل کو شاید اندرونی و بیرونی طور پر پاک کرنے کا انتظام ہورہا تھا۔“
ذ:… ”اب میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ گناہ گار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سالہا سال رہنے کا شرف حاصل ہوا۔“
ح:… ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی برابر تشریف لارہے ہیں، آپ کے آنے کے بعد ہمارے رہن سہن میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔“
ط:… ”نبیل کو قرآن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا۔“
ی:… ”بہت سے لوگوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، سب لوگ بے حد متاثر ہوئے اور اس معاملہ کی سچائی کی گواہی دی۔“
ک:… ”میں انہیں بتاتا کہ نبیل کے پاس بہت اہم پیغامات ہیں جو ہمیں کسی قیمت پر لوگوں تک پہنچانے ہیں۔“
ل:… ”لیکن یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نیا روپ دیکھ رہا تھا اور یہ روپِ محمد ایسا تھا جس میں آپ اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائے، آپ بھی اردو میں گفتگو کرتے ہیں۔“
م:… ”جو جو واقعات بھی رونما ہورہے تھے، میری معلومات کے مطابق وہ اسلام کے بنیادی عقائد سے بالکل مختلف تھے، جب میں نے اپنے ان خدشات کا اظہار آپ کے سامنے کیا تو آپ نے مجھ سے چند سوالات پوچھے جو مندرجہ ذیل ہیں: کیا تم اللہ پر یقین رکھتے ہو؟، کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ ناممکن نہیں؟، کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ مُردوں کو زندہ کرسکتا ہے؟ ،کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ مجھے دوبارہ بھیجنے پر قدرت رکھتا ہے؟، کیا تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ نبیل کو شفایاب کرسکتا ہے؟، میں کسی بھی سوال کا انکار کرنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا، اس لئے میں نے کہا بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اب یہی سوال میں لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں۔“
ن:… ”جو کمرہ حضرت غوث پاک نے بطور بیٹھک منتخب کیا تھا، وہ اب چلہ رسول پاک میں تبدیل ہوگیا ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر اپنی عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔“
س:… ”اس سے ملحقہ کمرے کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم ہوا، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں۔“
ع:… ”ایک چھوٹی سی جگہ جو چلہ رسول پاک کے داخلی دروازے کے پاس ہے، اسے نبیل کی عبادت گاہ یعنی چلہ بنادیا گیا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں پر پیغامات لکھے جاتے ہیں، ان مقامات کو مقدس بتایا گیا۔“
ف:… ”یہ وہ ناقابل یقین حقیقت ہے، جسے میں نے پیش کردیا ہے، میں نے ابھی کچھ راز افشا کئے ہیں، جب کہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھانا ابھی باقی ہے، جو انشاء اللہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔“
ص:… ”جو لوگ اسے من گھڑت داستان یا پھر کسی دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں انہیں اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ اگر یہ کلام الٰہی نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ “
ق:… ”میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس تمام معاملے میں میری طرف سے کوئی دعویٰ ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا، مجھے امید ہے کہ تمام لوگ میرا نقطہ نظر سمجھتے ہوئے مجھ پر الزام لگانے سے گریز کریں گے۔“
ر:… ”یہ میں بھی جانتا ہوں کہ دین مکمل ہوچکا، اب کوئی نبی نہیں آئے گا ،کوئی وحی نہیں آئے گی، کوئی اللہ کا پیغام نہیں آئے گا، لیکن اگر پھر بھی آئے تو کیا کیا جائے؟۔“
ان تفصیلات کے بعد کیا کوئی معمولی عقل و فہم کا انسان یہ باور کرسکتا ہے کہ ان غلیظ دعاوی اور نظریات کا حامل شخص تکمیل دین، انقطاع وحی اور ختم نبوت کا قائل ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر اس موذی کی اس ہرزہ سرائی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ: ”میری طرف سے نہ کوئی دعویٰ ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا۔“ کیا ہم ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ اگر یہ دعویٰ نہیں تو دعویٰ اور کس چیز کا نام ہے؟
دیکھاجائے تو اس ملعون نے پورے دین، مذہب، اسلام، اسلامی عقائد، نظریات اور ایمانیات پر اپنے الحاد و زندقہ کا تیشہ چلاکر اس کا صفایا کردیا ہے،کسی قدر غور کیاجائے تو اس بدنہاد نے جس واضح انداز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ اور ظل و بروز کے قادیانی عقیدہ کو بیان کیا ہے، شاید کوئی قادیانی بھی اس طرح نہ کرسکتا۔
اس کے ساتھ ہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ! کیپٹن ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ خان کے تعارف کے مندرجہ بالا نکات کا ترتیب وار تنقیدی جائزہ پیش کردیاجائے:
۱:… کیا ہم ڈاکٹر ضیاء اللہ خان سے پوچھ سکتے ہیں کہ جس نام نہاد کلام میں نکتے اور اعراب نہیں تھے اور آپ کے لئے اس کا سمجھنا مشکل تھا، وہ کلام آپ کی سمجھ میں کیسے آگیا؟ چلئے آپ نے جیسے تیسے کرکے اسے سمجھ لیا یا اپنی ناقص و ناتمام عقل و فہم کی مدد سے اسے الٹا سیدھا مرتب کرلیا تو اسے کلام الٰہی کا نام کس بنیاد پر دیاگیا؟ کیا آپ کے پاس ایسا کوئی معیار یا پیمانہ ہے، جس کے ذریعے اس کا پتہ لگایا جاسکے کہ کون سا کلام، کلامِ الٰہی ہے اور کون سا کلام ،کلامِ الٰہی نہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ ایسی مہمل و بے کار اور غیر مربوط آوازوں کو کلام الٰہی کا نام دینا افترأ علی اللہ نہیں؟ کیا کوئی عقل مند انسان ایسی بے کار و مہمل آوازوں کو جو کسی معذور ومجنون کے کانوں میں آئیں، کلام الٰہی کا نام دے سکتا ہے؟ اس سب سے ہٹ کر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب قرآن و حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہوچکا اور وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ،تو اب کسی انسان کے کلام کو وحی الٰہی یا کلام الٰہی کا نام دینا اجرائے وحی اور اجرائے نبوت کے مترادف نہیں؟ اور جو اجرائے نبوت اور اجرائے وحی کا قائل ہو، اس کا اسلام اور پیغمبر اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
۲:… آپ کے بقول اس کلام کا سمجھنا آپ کے لئے مشکل تھا، مگر بایں ہمہ آپ نے اس کو مرتب کرکے تحریری شکل دے دی ،تو یقینا اس کی سمجھ اور ترتیب میں آپ نے فاش غلطیاں کی ہوں گی، یا پھر آپ نے اس کلام کو ترتیب دینے میں اٹکل پچو سے کام لیا ہوگا، لہٰذا نہیں معلوم کہ آپ نے اس کلام کے سمجھنے اوراُسے کلام الٰہی باور کرانے میں کتنی ٹھوکریں کھائی ہوں گی؟ اس لئے نہیں کہاجاسکتا کہ یہ نام نہاد کلام تحریف اور تبدیل کے کن کن مراحل سے گزر کر اس شکل میں آیا ہوگا؟ لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ: ”میں ان پیغامات میں کسی قسم کے ردو بدل کا اختیار نہیں رکھتا “اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
۳:… اس سب سے ہٹ کر اگر وہ کلام الٰہی ہے تو اس کو وقتی طور پر مخفی رکھنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہیں کہ جو کچھ آپ تک پہنچا ہے اس کو دوسروں تک پہنچایئے!
۴:… آپ کا یہ کہناکہ: ”ایک بار انوکھا واقعہ ہمارے ساتھ ضرور پیش آیا، جسے شاید معجزہ کے زمرہ میں لیا جاسکے۔“ چشم بددور! آپ کا یہ دعویٰ کہیں دعویٰ نبوت کے زمرے میں تو نہیں آتا؟ کیونکہ کسی خرق عادت پر معجزہ کا اطلاق اسی وقت ہوتا ہے جب وہ کسی نبی سے صادر ہو، اور اگر کسی ولی سے خرق عادت صادر ہو تو اس کو معجزہ نہیں، کرامت کہا جاتا ہے۔ نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف تو آپ اس کو معجزے کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے لئے ”شاید“ کا لفظ بھی استعمال فرماتے ہیں، آخر ایسا کیوں؟شاید اس لئے کہ کہیں آپ کے خلاف ملکی قانون کی دفعہ ۲۹۵سی حرکت میں نہ آ جائے؟
۵:… آپ نے نبیل کے اپنی انگلی رگڑنے پر کسی فوت شدہ بزرگ سے بات چیت یا ہم کلام ہونے کو معجزہ کا نام دیا ہے، آپ کے اس کلام کا کیا مقصد ہے؟ آخر نبیل میں ایسی کون سی معجزاتی خصوصیات پائی جاتی ہیں؟
اللہ تعالیٰ بدگمانی سے بچائے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے نبیل کی اپنی انگلی دوسرے ہاتھ پر رگڑنے کی صورت میں کسی فوت شدہ بزرگ سے بات چیت کرنے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ یدبیضا کی طرح معجزہ تو قرار نہیں دیا؟ دوسرے الفاظ میں کہیں آپ یہ تو باور نہیں کرانا چاہتے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی بغل میں لیجائیں ، وہ ہاتھ سفید ہوجائے اور وہ معجزہ کہلائے تو نبیل کی انگلی اور دوسرے ہاتھ کی رگڑسے کسی مرحوم بزرگ سے بات چیت، کیونکر معجزہ نہیں کہلاسکتا؟
۶:… نبیل کی قے، کی خاص مقدار کو ان کی اندرونی پاکی سے تعبیر کرنا، نعوذباللہ! کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شق صدر کے ہم پلا قرار دینے کی ناپاک سعی وکوشش تو نہیں؟ ورنہ قے آنے کو اندر کی پاکی سے تعبیر کرنا چہ معنی دارد؟ ۷:… آپ کا یہ کہنا بھی بہت ہی خطرناک ہے کہ : ”اب میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ گناہ گار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سالہا سال رہنے کا شرف حاصل ہوا۔“ اس لئے کہ اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ آپ اگلے مرحلہ میں یہ دعویٰ نہ کردیں کہ چونکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رہا ہوں، لہٰذا میں اب صحابی بن گیا ہوں اور بالفرض اگر آپ ایسا دعویٰ کر بھی دیں تو آپ کو کون روک سکتا ہے؟
۸:… آپ کا کہنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سالہا سال سے آپ کے گھر میں آرہے ہیں، سوال یہ ہے کہ آپ سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے گھر آئے ہیں؟ یا یہ اعزاز آپ سے پہلے بھی کسی کو نصیب ہوا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو سوال یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام، حضرات ازواج مطہرات اور حضرات بنات مقدسہ اور چودہ صدیوں کے اکابر ،اولیاء اللہ ،ابدال، اقطاب، زہاد اور عباد اس سے کیوں محروم رہے؟ کیا آپ کا یہ دعویٰ عقل و شعور اور فہم و ادراک سے میل کھاتا ہے؟ کیا آپ کی یہ لاف نعوذباللہ! اپنے آپ کو پوری جماعت صحابہ، اہل بیت ،بلکہ پوری امت کے مجددین و صلحا سے افضل و اقدس باور نہیں کراتی؟
۹:… آپ کا یہ کہنا کہ:” نبیل کو قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا اور نبیل کے قد بڑھانے کے مترادف نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ آپ کے بیٹے نبیل کے علاوہ آج تک کسی اور کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھایا؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحلت کے بعد کسی دوسرے کے گھر بھی قرآن پڑھانے گئے ہیں؟ کیا قرآن، سنت، اجماع امت اور تاریخ و سیر میں اس طرح کی کوئی مثال ملتی ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس گپ کا کیا معنی ہے؟
۱۰:… آپ کا یہ کہنا کہ: ”بہت سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا“ سوال یہ ہے کہ آپ سے یا ان بہت سے لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کی کیا صورت تھی؟ براہ راست اپنے جسد عنصری میں ملاقات کا شرف بخشا ،یا پردہ کے پیچھے، جسم مثالی سے؟ جاگتے ہوئے یا نیند میں؟ کہیں یہ سب کچھ آپ کی شعبدہ بازی تو نہیں؟ ورنہ آج تک امت میں کسی عقل مند نے ایسادعویٰ نہیں کیا۔
۱۱:… آپ کا یہ کہنا کہ: ”لیکن یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نیا روپ دیکھ رہا تھا اور یہ روپِ محمد ایسا تھا، جس میں آپ اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائے، آپ اردو میں گفتگو کرتے ہیں۔“
سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نئے روپ سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد عنصری کے ساتھ دوبارہ تشریف لائے ہیں یا کسی دوسرے جسم کے ساتھ؟اگر بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دنیاوی جسد عنصری کے ساتھ تشریف لائے ہیں تو آپ کی زبان عربی سے اردو میں کیسے تبدیل ہوگئی؟ اور اگر کسی دوسرے جسم، اور روپ میں آئے ہیں تو اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا نام دینا کیونکر جائز ہوگا؟ کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی، گستاخی اور بے جا جرأت نہیں کہلائے گی؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے تو کیا گزشتہ چودہ سو سال سے آپ کے علاوہ کسی اور نے بھی ایسی گستاخی کی ہے؟
۱۲:… آپ کا یہ کہنا کہ: ”جو جو واقعات بھی رونما ہورہے تھے، میری معلومات کے مطابق وہ اسلام کے بنیادی عقائد سے بالکل مختلف تھے۔“ سوال یہ ہے کہ جب آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے تو آپ کو ان شیطانی وساوس کو آگے پھیلانے اور اس پر اصرار کی جرأت کیونکر ہوئی؟
آپ کا یہ کہنا کہ :”میں نے ان خدشات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ کہہ کر خاموش کرادیا کہ: ”اللہ کے لئے سب کچھ ممکن ہے، اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ بھیجنے پر قدرت رکھتا ہے“ بے شک اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے لئے کچھ اصول اور ضابطے مقرر فرمائے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے ضابطوں کی مخالفت نہیں کرتا، کیونکہ قرآن کریم میں ہے۔”ولن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلاً“․․․آ پ اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقوں میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے․․․ سوال یہ ہے کہ صرف اور صرف آپ ہی کے لئے اپنے ضابطے اور قانون کو کیوں توڑا؟ آپ کو تمام انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام اور پوری امت سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ایسا کون سا اختصاص یاتقرب ہے؟ جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون اور ضابطے کو توڑ کر آپ کے لئے اور آپ کے بیٹے کے لئے اور آپ کے گھرانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ زندہ فرماکر آپ کے گھر بھیج دیا؟ نعوذباللہ من ذلک، ہذاا لہذیان۔
۱۳:…کیا اس سے بڑا کوئی الحاد و زندقہ بھی ہوگا کہ یہ کہا جائے کہ میرے گھر کے ایک کمرہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں،کیا یہ ہندوؤں کے عقیدہ اواگان کی ترویج نہیں؟
۱۴:… آپ کااپنے گھر کے ایک کمرہ کو مسجد رسول، چلہ رسول اور مقدس مقامات سے تعبیر کرنا، نعوذباللہ! اپنے گھر کے ان کمروں کو بیت اللہ ، مسجد حرام اور مسجد نبوی کے ہم سنگ قرار دینے کے مترادف نہیں؟ کیا اس سے مسلمانوں کو حرمین اور مقامات مقدسہ سے ہٹاکر اپنے گھر کی طرف متوجہ کرنے کی ناپاک سا زش نہیں؟
۱۵:… اسی طرح آپ کا یہ کہنا کہ: ”ابھی بہت سے رازوں سے پردہ اٹھانا باقی ہے“ کہیں دعویٰ نبوت کے انتظار کی دعوت تو نہیں؟
۱۶:… جب آپ جانتے ہیں کہ دین مکمل ہوچکا ہے اور اب کوئی نبی یا کسی قسم کی کوئی وحی نہیں آئے گی تو پھر اس ڈھونگ کا کیا معنی؟کہ: ”اگر پھر بھی آجائے تو کیا کیا جائے“کیا یہ اس بات کی عکاسی نہیں کرتا کہ آپ ختم نبوت اور انقطاع وحی کے قائل نہیں ہیں؟ اور جوشخص اجرائے نبوت اور اجرائے وحی کا قائل ہو، وہ قرآن و سنت اور اجماع امت کی رو سے مرتد، زندیق اور ملحدہے۔
الغرض یہ ملعون اپنے مزموم عزائم و ارادوں اور عقائد و نظریات کو الحاد و زندقہ کے سو سو پردوں میں لپیٹ کر کیوں نہ پیش کرے، مسلمانوں کے تعاقب اورغیظ و غضب سے کسی صورت نہیں بچ سکے گا۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹرضیاء اللہ کے مطبوعہ ہینڈبل کو پڑھنے کے بعد ایک معمولی عقل و فہم کا انسان بھی بآسانی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اس شخص نے ایک پیدائشی معذور بچے کی بیماری کے دورہ کا سہارا لے کر اس مطبوعہ پرچہ میں ان تمام قادیانی عقائد و نظریات کو درج کر دیا ہے، جن کی مرزا غلام احمد قادیانی زندگی بھر تبلیغ کرتا رہا، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کی اطلاع اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اس دجل و فریب سے بچانے کے لئے اس پرچہ کو ذیل میں بعینہ نقل کردیا جائے، لیجئے ! ملاحظہ فرمایئے:
”اے محمد! کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، نہ وہ کسی کا باپ نہ وہ کسی کا بیٹااس کا کوئی ہمسر نہیں، کہو کہ اللہ نے تمہیں عزت دی، کہو کہ اللہ نے تمہیں پسند کیا، کہو کہ میں نے تمہیں سب سے افضل کیا، کہو کہ اللہ نے تم سے وعدہ کیا، کہو کہ اللہ نے اسے پورا کیا، کہو کہ اللہ نے تمہیں رحمت بناکر بھیجا، کہو کہ اللہ نے تمہیں وہ مقام دیا جو کسی کو نہ دیا، تمہیں سب سے افضل کیا جو کسی کو نہ کیا، کہو کہ اس نے تمہیں شہنشاہ بنایا جو کسی کو نہ بنایا، کہو کہ اللہ نے تمہاری مدد کی جو کسی کی نہ کی، کہو کہ میں تمہارا رب ہوں، کہو کہ میں اس کا بندہ ہوں، کہو کہ اس نے محمد کو دوبارہ بھیجا، کہو کہ اس نے مجھے وہ مقام دیا جو تمہیں نہیں د یا، کہو کہ اس نے تمہیں صرف اپنا محتاج بنایا ، کہو میں تمہارے پاس وہی دین لایا لیکن صحیح لایا، کہو کہ اس نے تمہیں اپنا پسندیدہ بندہ بنایا، کہو وہ پیدا کرنے والا ہے وہ مارنے والا ہے، وہ صبر سے کام کرنے والا ہے، وہ صبر کرنے والوں میں سے ہے، وہ محمد کو دوبارہ بھیجنے والا ہے، وہ اپنے حبیب کو دوبارہ بھیجنے والا ہے، وہ دن وہ لانے والا ہے، وہ دن اب آنے والا ہے، وہی ہے جو تمہیں منواسکتا ہے، کہو کہ وہ تمہارا رب ہے، اور بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے محمد! بتاؤ اور سکھاؤ، سکھاؤ کہ کیا صحیح ہے کیا غلط، سکھاؤ کہ اصل دین کیا ہے؟ اے محمد! بتاؤ کہ تمہارا رب تم سے کیا کہتا ہے؟ بتاؤ کہ تمہارا رب...کیا لکھتا ہے؟ بتاؤکہ تمہارا رب کیسے ایک بے جان ہاتھ سے لکھتا ہے، بتاؤ کہ تمہارا رب کیسے ایک معذور کو معذوری سے ہٹاسکتا ہے، بتاؤ کہ تمہارا رب کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے، بتاؤ کہ تمہارا رب اپنے وعدے کیسے پورے کرتا ہے، بتاؤ کہ تمہارا رب کیسے ایک ناممکن چیز کو ممکن بناسکتا ہے، بتاؤ کہ تمہارے رب کے پاس وہ طریقے ہیں جو تمہارے پاس نہیں۔
اے محمد! اور بیشک ہم نے تمہیں دوبارہ اس دنیا میں بھیجا، اس نام سے جس کے لئے تمہاری امت انتظار کررہی ہے، اور بیشک ہم نے تم کو بھیجا عیسیٰ ابن مریم کو لانے، دجال کو قتل کرنے۔
اے محبوب! اور بیشک جو لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں ان کے لئے یہ رات نہیں، اور ان کے لئے نہیں جن کی زبان پر محمد کا نام نہ ہو، لیتے ہیں لوگ محمد کا نام لیکن سمجھتے نہیں، سمجھتے ہیں لوگ محمد کو لیکن پہچانتے نہیں، رات ان لوگوں کے لئے ہے، جو محمد کو مانتے ہیں، پہچانتے ہیں، سمجھتے ہیں، اس رات میں بہت برکت ہے، بیشک اللہ ہر چیز سننے والا ہے، اس رات قبول کرتا ہے تو اپنے محبوب کے کہنے کے بعد۔
قسم ہے اس کلامِ پاک کی اور اس رات کی اور اس رات کی جب یہ (کتاب) لکھی گئی اور جو کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ کوئی نئی چیز پیدا ہوگئی تو کہہ دو۔ ان سے، کیا اس کلام نے جھٹلادیا قرآن کو؟ کیا جھٹلاڈالا اس کلام نے پیغمبروں کو؟ اور جو کہا کہ محمد وہی ہیں جن کے لئے امت انتظار کررہی ہے، اور کہا یہ تمہاری کتابوں سے پرتم نہیں جانتے۔
بیشک اگر پیغمبر ہو اور اسے دوبارہ بھیجا جائے تو بیشک اس پر وحی آسکتی ہے، اب کوئی ہدایت نہیں آئے گی، بیشک اب کوئی نئی ہدایت نہیں آئے گی، ہے وہی، پر لوگ اس پر غلط ہیں۔
تم وہی دین لائے جو کہ پہلے تھا، تم وہی دین لائے لیکن صحیح لائے، اور بیشک دین ویسا نہیں جیسا ہوگیا ہے اور بھیجا گیا تم کو اس واسطے کہ تم صحیح کردو دین، بیشک لوگ دین کے معاملے میں غلطی پر ہیں۔
تو کیا جھٹلاڈالا اس کلام نے آخری نبی کو؟ کیا بڑھاڈالے پیغمبر؟ بیشک نبی وہی پھر دوبارہ بھیجا جاتا ہے ، اور ہے یہ تمہاری کتابوں میں تم نہیں جانتے تو پھر تم کن کو جھٹلاتے ہو؟ تو اب اگر تم ان کو بھی جھٹلادو تو تم سے بڑھ کر ظالم کون؟
قسم ہے اس کلام پاک کی اور اس روشن کتاب کی اور اس رات (شب ِ قدر) کی، پھر اس رات کی، اور ہے یہ کتاب عقل والوں کے لئے اور آسان کیا رب نے اس کتاب کو اور نہیں لکھا اس کو عربی زبان میں بلکہ لکھا تمہاری زبان میں تاکہ تم سمجھ سکو، اور پڑھو اس کتاب کو وضو سے جیسا کہ پڑھتے ہو قرآن، بیشک قرآن حق ہے، اور بیشک یہ کتاب بھی حق ہے اور آئی ہے یہ کتاب صحیح بات بتانے کے لئے، دین کو بچانے کے لئے، اصل دین بتانے کے لئے، باطل کو مٹانے کے لئے، حق کو لانے کے لئے، کفر کو مٹانے کے لئے، اور ہے یہ رات بڑی برکت والی عقل والوں کے لئے، اور اللہ بڑی عزت والا، بڑی حکمت والا ہے،تو پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
اور اللہ نے تم سے وعدہ کیا، پھر کیا خوب وہ وعدہ ہے، جو وعدہ ہے ساری کائنات کے مالک کا، جس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور اس کا حکم سب سے بہتر ہے، اور اللہ عنقریب تم کو ضرور صحت دے گا، بس تم صبر کرو اور یقین رکھو اس پر جو ہے مالک سارے جہان کا، اور جو جھٹلاتے ہیں اس کو، تو کہہ دو کہ اللہ چاہے تو سب کچھ کرسکتا ہے۔
یہ بات حق ہے کہ جو حق کو نہ مانے وہ عذاب کا حق دار ہے، اور اللہ نہیں مانگتا تم سے کچھ، کہ یہ امتحان ہے تمہارے لئے کہ اس محمد کے ساتھ کیا کرتے ہیں جس کے عاشق ہونے کا یہ کہتے تھے، یہ بات حق ہے کہ یہ معاملہ ہے محمد، عیسیٰ اور دجال کا اور اللہ منوائے گا تمہیں اور اللہ ہر بات کا جاننے والا ہے۔“‘
(www.rupemuhammad.blog.com www.rupemuhammad.zoomshare.com) جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ کیپٹن ڈاکٹر ضیاء اللہ خان نے اپنے بیٹے نبیل کی بیماری، معذوری اور ہذیان آمیز دوروں کو بنیاد بناکر، اس کے نام کی ایک ویب سائٹ بنائی اور اس کا نام رکھا : ”روپِ محمد“ اس ”روپِ محمد“ نامی ویب سائٹ میں جہاں اس نے اپنے بیٹے کے ”غیر معمولی“ اقوال، طلسماتی کرشمے درج کئے ہیں، وہاں اس نے اس کے کراماتی کلام کو نمایاں کرنے کے لئے: ”کَلامُکَ کَمالُکَ“ کے عنوان سے مندرجہ بالاایک صفحے کا ہینڈبل بھی تقسیم کرنا شروع کررکھاہے۔ اب آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس پرچہ میں درج” ملفوظات “اور” کراماتی کلام“ میں کس قدر قادیانی الحادوزندقہ کی ترجمانی کی گئی ہے؟
۱:… اس پرچہ کے پہلے پیرا گراف میں چار جگہ اس کا اظہار و اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”محمد“ کو دوبارہ بھیجا ہے، مثلاً:
الف:… ”کہو! کہ اس نے محمد کو دوبارہ بھیجا۔“
ب:… ”وہ محمد کو دوبارہ بھیجنے والا ہے۔“
ج:… ”وہ اپنے حبیب کو دوبارہ بھیجنے والا ہے۔“
د:… ”اے محمد! اور بے شک ہم نے تمہیں دوبارہ اس دنیا میں بھیجا، اس نام سے جس کے لئے تمہاری امت انتظار کررہی ہے۔“
دریافت طلب امر یہ ہے کہ موصوف نے ایک پیرا گراف میں چار مرتبہ جس محمد کو دوبارہ بھیجے جانے کا اعلان کیا ہے، اس سے ان کی کیا مراد ہے؟ آیا اس سے وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جو حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کے بیٹے، جناب عبدالمطلب کے پوتے، نبی، امی اور نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ جو مکہ مکرمہ میں سیّد الاولین والآخرین بناکر بھیجے گئے تھے یا کوئی اور؟
اگر خدانخواستہ اس سے نبی امی اور سیّدالاولین والآخرین مراد نہیں، تو خاکم بدھن یہ عقیدہ ختم نبوت اور منصب نبوت پر ڈاکا نہیں؟ کیا یہ قرآن، حدیث، اجماع امت سے بغاوت نہیں؟ کیونکہ ایک سو آیات، دو سو سے زائد احادیث اور اجماع امت کی روشنی میں صراحتاً اور بداہتاً یہ بات واضح اور محقق ہوچکی ہے کہ آقائے دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبییّن اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کسی کو نبوت و رسالت کے اعزاز سے سرفراز نہیں کیا جائے گا۔ اگر خدانخواستہ کوئی بدطینت اور بدنہاد اس کے باوجود دعویٰ نبوت کی جرأت کرے گا تو وہ کذاب و دجال کہلائے گا۔
اور اگر اس سے مراد وہی نبی امی مراد ہیں، جو مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کے ہاں پیدا ہوئے، غارِ حرأ میں عبادت کرتے رہے، اور حرأ ہی میں ان پر پہلی وحی نازل ہوئی، معراج کی سعادت سے سرفراز ہوئے، قرآن کریم ان کا معجزہ اور کتاب ہدایت قرار پائی۔ ہجرت سے قبل ۱۳ سال مکہ مکرمہ میں اور ہجرت کے بعد ۱۰ سال مدینہ منورہ میں قیام فرما رہے اور اب گنبد خضرأ میں مکین ہیں، تو سوال یہ ہے کہ ان کو کب اور کہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ: ”اے محمد! اور بے شک ہم نے تمہیں دوبارہ اس دنیا میں بھیجا، اس نام سے جس کے لئے تمہاری امت انتظار کررہی ہے؟۔“
کیا ان صاحب سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ قرآن کریم کی کس آیت یا کس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماکر دوبارہ دنیا میں بھیجنے کا اعلان کیا تھا؟ اگر وہ اس کی نشاندہی کردیتے تو بہت ہی عنایت ہوتی؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو نہ صرف یہ افترأ علی اللہ ہے، بلکہ درحقیقت یہ مرزا غلام احمد قادیانی کے اس عقیدہ کا اظہار و بیان ہے جس کا اس ملعون نے اپنی متعدد کتابوں میں اعلان کیا ہے، مثلاً کتاب تحفہ گولڑویہ، ص:۱۶۳ میں اس نے ان الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے کہ:
الف:… ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثت ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ آنا دنیا میں وعدہ دیا گیا تھا، جو مسیح موعود اور مہدی معہود (مرزا قادیانی) کے ظہور سے پورا ہوا۔“ (روحانی خزائن، ص:۲۴۹، ج:۱۷)
ب:… ”اور جان کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے (یعنی چھٹی صدی مسیحی میں) ایسا ہی مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) کی بروزی صورت اختیار کرکے چھٹے ہزار (یعنی تیرھویں صدی ہجری) کے آخر میں مبعوث ہوئے...“ (روحانی خزائن، ص:۲۷، ج:۱۶)
ج:… ”محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم“ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔“
د:… مرزا غلام احمد قادیانی کے مرید قاضی ظہور الدین اکمل نے بھی مرزا غلام احمد قادیانی کو نعوذباللہ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر قرار دیتے ہوئے لکھا :
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
(اخبار بدر قادیان، ۲۵/ اکتوبر ۱۹۰۶ء بحوالہ قادیانی مذہب، ص:۳۳۶)
۲:… ”کَلا مُکَ کما لُکَ“میں اجرائے نبوت اور اجرائے وحی کے قادیانی عقیدہ کو بیان کرتے ہوئے مزید لکھا گیا ہے کہ:
الف:… ”بے شک اگر پیغمبر ہو اور اسے دوبارہ بھیجا جائے تو بے شک اس پر وحی آسکتی ہے۔“
ب:… ”تو کیا جھٹلا ڈالا اس کلام نے آخری نبی کو؟ کیا بڑھا ڈالے پیغمبر؟ بیشک نبی وہی، پر دوبارہ بھیجا جاتا ہے، اور ہے یہ تمہاری کتابوں میں، پر تم نہیں جانتے، تو پھر تم کن کو جھٹلاتے ہو؟ تو اب اگر تم ان کو بھی جھٹلادو تو تم سے بڑھ کر ظالم کون؟۔“
قارئین کرام! آپ نے دیکھا ”کَلا مُکَ کما لُکَ“ کا مرتب ملعون اپنی اس عبارت میں مرزا غلام احمد قادیانی کے عقیدہ اجرائے نبوت، اجرائے وحی کے علاوہ بعثت و ظہور ثانی کی تکذیب کرنے والوں کو ظالم قرار دیتا ہے، جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی قادیانی امت بھی ٹھیک یہی عقیدہ رکھتی ہے، چنانچہ ملاحظہ ہو:
”صدی چودھویں کا ہوا سر مبارک
محمد پئے چارہ سازی امت
حقیقت کھلی بعثت ثانی کی ہم پر
کہ جس پر وہ بدرالدجیٰ بن کے آیا
ہے اب احمد مجتبیٰ بن کے آیا
کہ جب مصطفی میرزا بن کے آیا“
(اخبار الفضل قادیان، ۲۸/ مئی ۱۹۲۸ء)
”اے میرے پیارے مری جان رسول قدنی
پہلی بعثت میں محمد ہے تو اب احمد ہے
تیرے صدقے تیرے قربان رسول قدنی
تجھ پہ پھر اترا ہے قرآن رسول قدنی“
(اخبار الفضل قادیان، ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۲ء)
ج:… ”یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں...“ (ضمیمہ براہین احمدیہ، حصہ پنجم، ص:۱۸۳، روحانی خزائن، ص:۳۵۴، ج:۲۱)
د:… ”ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا، وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔“ (کلمة الفصل، ص:۱۱۰، مرزا بشیر احمد ایم اے)
ہ:… ”چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے، اس لئے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم اور اس وحی کو جو میرے اوپر ہوتی ہے، فُلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا...۔“ (اربعین نمبر ۴، ص:۷، روحانی خزائن ص:۴۳۵، حاشیہ ج:۱۷)
الغرض جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی اجرائے نبوت، اجرائے وحی، بعثت ثانی، ظل اور بروز کا قائل تھا، اسی طرح یہ شخص بھی اس کا قائل ہے، چنانچہ وہ اس عبارت : ”اگر پیغمبر ہو، اور اسے دوبارہ بھیجا جائے، تو بے شک اس پر وحی آسکتی ہے۔“ کے ذریعے اپنے عقیدہ اجرائے نبوت، اجرائے وحی اور ظل و بروز کا اظہار و اعلان کرتا ہے۔
پھر جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت ظلی و بروزی نبوت کی آڑ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت، رسالت، اجرائے وحی اور مرزا کی وحی کے مجموعہ ”تذکرہ“ کو ہضم کرنے کی دعوت دیتی ہے، ٹھیک اسی طرح یہ شخص بھی اپنی مذکورہ بالا غلیظ اور بدبودار تحریر و عبارت میں اس کی دعوت دیتا ہے، چنانچہ یہ شخص اپنی اس شیطانی عبارت: ”کیا جھٹلا ڈالا اس کلام نے آخری نبی کو؟ کیا بڑھا ڈالے پیغمبر؟ بے شک وہی نبی دوبارہ بھیجا جاتا ہے۔“ کے ذریعے ان تمام قادیانی عقائد کی تبلیغ و ترویج کی ناپاک اور بھونڈی سعی و کوشش پر مصر نظر آتا ہے۔
۳:… جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی اپنی وحی کو قرآن کا درجہ دیتا ہے اور اس کے انکار کو کفر قرار دیتا ہے، ٹھیک اسی طرح یہ ملحد بھی اپنے لٹریچر ”کَلا مُکَ کما لُکَ“ میں نام لئے بغیر مرزا غلام احمد قادیانی کی وحی کے اردو مجموعہ ”تذکرہ“کو قرآن کا درجہ دیتے ہوئے لکھتا ہے:
”قسم ہے اس کلام پاک کی اور اس روشن کتاب کی اور اس رات (شب ِ قدر) کی، پھر اس رات کی، اور ہے یہ کتاب عقل والوں کے لئے اور آسان کیا رب نے اس کتاب کو، اور نہیں لکھا اس کو عربی زبان میں، بلکہ لکھا تمہاری زبان میں تاکہ تم سمجھ سکو، اور پڑھو اس کتاب کو وضو سے جیسا کہ پڑھتے ہو قرآن، بے شک قرآن حق ہے، اور بے شک یہ کتاب بھی حق ہے، اور آئی ہے یہ کتاب صحیح بات بتانے کے لئے، دین کو بچانے کے لئے، اصل دین بتانے کے لئے، باطل کو مٹانے کے لئے، حق کو لانے کے لئے، کفر کو مٹانے کے لئے۔ “
موصوف کی اس عبارت پر غور کیا جائے تو دو اور دوچار کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ جس کلام اور کتاب کی اہمیت و عظمت کو قسم کھاکر واضح کیا جارہا ہے، یا اس کے نزول کو شبِ قدر کی بابرکت اور مقدس ساعتوں کے ساتھ منسلک کیا جارہا ہے، وہ یقینا قرآن کریم کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ہے، اس لئے کہ موصوف لکھتے ہیں کہ:
الف:… ”اور نہیں لکھا اس کو عربی زبان میں، بلکہ لکھا تمہاری زبان میں تاکہ تم سمجھ سکو۔“
ب:… ”اور پڑھو اس کتاب کو وضو سے جیسے پڑھتے ہو قرآن۔“
ج:… ”بے شک قرآن حق ہے اور بے شک یہ کتاب بھی حق ہے۔“
ان تین فقروں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف کی مجوزہ ”عظیم کتاب“ قرآن کریم کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ہے جس کو قرآن کریم کے مدِ مقابل ذکر کیا گیا ہے۔ اگر اس کتاب کا مصداق قرآن کریم ہوتا تو یہ کیوں لکھا جاتا کہ یہ کتاب عربی میں نہیں تمہاری زبان میں لکھی گئی ہے؟ اسی طرح اگر اس کا مصداق قرآن کریم ہوتا تو یہ کیوں کہا جاتا کہ اس کو بھی ویسے ہی وضو سے پڑھو جس طرح قرآن کو وضو سے پڑھتے ہو، ایسے ہی اگر یہ کتاب قرآن کریم کے علاوہ کوئی دوسری نہ ہوتی تو یہ کیوں لکھا جاتا کہ یہ بھی ایسے ہی حق ہے جس طرح قرآن حق ہے۔
الغرض یہی کہا جاسکتا ہے کہ موصوف کی وہ کتاب جو عربی میں نہیں ہے اور وضو سے پڑھنے کی مستحق ہے اور وہ بھی قرآن کریم کی طرح حق ہے، اس کا مصداق مرزا غلام احمد قادیانی کی وحی کا مجموعہ تذکرہ ہے، ورنہ وہ خود بتلائیں کہ اس کا مصداق اس کے علاوہ کون سی کتاب ہے؟
الغرض یہ شخص نہایت عیاری اور مکاری سے قادیانی عقائد کا داعی او رمناد ہے۔ البتہ اس نے انداز بدل کر مسلمانوں کو مرزائی فتنہ کے قریب کرنے کی تحریک چلا رکھی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اس ملعون کے گمراہ کن انداز سے ہوشیار رہتے ہوئے دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کے فتنہ سے آگاہ کرنے کی سعی و کوشش کرنی چاہئے، اور اس کے فریب و دھوکا سے بچنا چاہئے۔
اہلِ عقل و فہم اس ویب سائٹ اور اس کی دعوت کو اس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھیں کہ کیا کبھی کسی معذور اور مجنون بچے کے ماں باپ اس قسم کے بچوں کے ہذیانات کے لئے ویب سائٹ بنایا کرتے ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو بتلایا جائے کہ یہ ویب سائٹ کیوں بنائی گئی؟ اور اس پر زرکثیر صرف کرکے ایک معذور و مجنون بچے کے ”ارشاد ات“ ”ملفوظات“ کو کیونکر عام کیا گیا؟ کیا کبھی کسے بچے اور وہ بھی معذور، کی کوئی بات قابل سند اور لائق اعتماد ہوتی ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی گھناؤنے اور خطرناک مقاصد و عزائم کارفرما ہیں، اس کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے اور وہ ہے مسلمانوں کو گمراہ کرنا اور مرزائی و قادیانی عقائد کی اشاعت و ترویج کرنا۔
یقین کی حد تک ہمارا وجدان کہتا ہے اور ”کَلا مُکَ کما لُکَ“ کی عبارت بھی اس کی تائید و تصدیق کرتی ہے کہ یہ شخص زندیق و ملحد ہے، اور قادیانی الحاد و زندقہ کا پرچارک ہے۔ تاہم اگر وہ کہتا ہے کہ میں قادیانی نہیں ہوں اور میرا مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد و نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے، ...جیسا کہ اس نے نبیل کے تعارف میں اپنے آپ کو ختم نبوت کا قائل باور کرانے کی کوشش کی ہے...تب بھی وہ اپنے الحاد و ندقہ اور قرآن و سنت کی توہین و تنقیص، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے انکار اور ظل و بروز یا بعثت ثانیہ وغیرہ عقائدونظریات کی وجہ سے عقیدہ ختم نبوت سے باغی ہے، لہٰذا وہ بھی اُسی سلوک کا مستحق ہے، جس کا مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی امت ہے، کیونکہ اس صورت میں گویا یہ ملعون اپنے کلام کو قرآن کا، اپنے آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اپنے شیطانی خیالات کو وحی و الہام کا درجہ دے کر بدترین گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ لہٰذا جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والے ملحد و زندیق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ و باغی ہیں، ٹھیک اسی طرح یہ بھی ملحد و زندیق اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ و باغی ہے، جس طرح غلام احمد قادیانی کے فتنہ سے امت کو بچانا فرض ہے، ٹھیک اسی طرح اس کا تعاقب کرنا بھی فرض ہے، الَّا یہ کہ توبہ کرکے دوبارہ تجدید ایمان کرلے۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter