Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوا لقعدہ ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

1 - 11
اپنوں کوسمجھانے کی ضرورت !
اپنوں کو سمجھانے کی ضرورت


الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
آج کل ہر طرف ایک ہی آواز اور ایک ہی شکایت ہے کہ ہماری کوئی نہیں مانتا، جب کوئی مانتا اور سنتا نہیں تو کسی کو کچھ کہنا سننا بے سود ہے۔ گویا آج کل حق گوئی اور حقائق کی طرف راہ نمائی سے اس لئے پہلوتہی کی جارہی ہے کہ ہماری سنی اور مانی نہیں جاتی، اسی لئے تبلیغ و وعظ کا فریضہ بھی روزافزوں بے اعتنائی کا شکار ہے ،نہ صرف یہی بلکہ اس تصور سے قریب قریب ہر طبقہ مایوسی کا شکار ہے۔
بڑے ہوں یا چھوٹے، عالم ہوں یا جاہل، اپنے ہوں یا پرائے، مذہبی راہنما ہوں یا سیاسی لیڈر سب ہی اس سے متاثر ہیں اور سب ہی اس دلدل میں گھرے ہوئے ہیں، چنانچہ اگر کوئی نام نہاد مسلمان، یا لبرل و روشن خیال سیاسی لیڈر، اسلام اور شعائر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرے یا قرآن و سنت اور امت کے اجماعی عقائد کے خلاف لب کشائی کرے تو اس کا تعاقب کرنے، امت کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے یا ان کی ٹھیک ٹھیک راہ نمائی کرنے کی بجائے محض اس لئے چپ سادھ لی جاتی ہے یا اس لئے صدائے حق بلند نہیں کی جاتی کہ جب کوئی مانتا، سنتا نہیں تو چیخنے، چلانے کا کیا فائدہ؟
بعض اوقات تو یہ آوازیں بھی کان میں پڑتی ہیں کہ ان بدنہادوں کو کچھ کہنا یا ان کی مخالفت کرنا یا ان کے خلاف آواز اٹھانا اپنے آپ کو تعب، مشقت یا آزمائش میں ڈالنے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے خلاف اٹھنے والی آواز اور صدائے احتجاج کو خاموش کردیتے ہیں یا اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگادیتے ہیں۔ لہٰذا ایسے افراد، اقوام، جماعتوں اور ان کے بدنہاد لیڈروں کی عداوت اسلام پر مبنی ہرزہ سرائیوں کی مخالفت میں لب کشائی کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، یا یوں کہئے! کہ اس کی جرأت نہیں کی جاتی، بلکہ اگر کوئی مخلص ایسی کسی جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرے تو اسے سر پھرا، بے عقل، حکمت و دانش سے کورا اور اپنی آل اولاد اور جان و مال اور عزت و وقار کا دشمن وغیرہ تصور کیا جاتا ہے۔
ہماری انہی خود تراشیدہ مجبوریوں اور بے بسیوں کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ رفتہ رفتہ اسلام دشمن افراد اور قوتیں زور پکڑتی جارہی ہیں اور ان کی معاشرے پر گرفت روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے، اس کے برعکس مسلمانوں اور خصوصاً اہل ِ حق کی گرفت دن بہ دن کمزور اور ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔
چنانچہ کسی زمانہ میں ایسے بدباطن کھلے عام اسلام دشمنی کرنے سے پہلے سو بار سوچتے تھے، اس لئے کہ ان کو اندیشہ، خطرہ بلکہ سو فیصد یقین ہوتا تھا کہ مسلم معاشرہ ہمارے باطل افکار و نظریات اور ہرزہ سرائیوں کی مری ہوئی اس مکھی کو نگلنے کے لئے کسی حال میں آمادہ اور تیار نہیں ہوگا، لیکن افسوس کہ اب ہماری مصلحت کوشی اور نام نہاد ڈر، خوف اور مجبوریوں کی نحوست کی وجہ سے اسلام دشمن افراد، قوتیں اور لابیاں آگے بڑھتے، بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی ہیں کہ وہ کھل کر اب منصوصات شرعیہ، قرآن و سنت اور امت کے چودہ سو سالہ اجماعی عقائد و نظریات پر تیشہ چلانے لگی ہیں، مگر اے کاش !کہ ان کے منہ میں لگام دینے کی کسی کو جرأت اور ہمت نہیں بلکہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی؟
دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ یا ہمارے دور کے اسلام دشمن، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے دور کے معاشرہ اور ان کے معاندین و مخالفین سے بڑھ کر شقی و بدبخت نہیں ہیں، اسی طرح ہمارے دور کے باغیانِ اسلام ہمارے اسلاف و اکابر کے دور کے باغیوں سے بڑھ کر نہیں ہیں، اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے تو سوال یہ ہے کہ کل قیامت کے دن ہمارا یہ عذر یا ہماری یہ نام نہاد حکمت عملی سنی جائے گی؟ یا اس کا بارگاہ الٰہی میں کوئی وزن ہوگا؟ یا اس کی بدولت ہماری جان بخشی ہوجائے گی؟
دور جانے کی ضرورت نہیں، ملک کی تقسیم سے قبل جب متحدہ ہندوستان میں انگریز نے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے، ان پر تیشہ چلانے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے اور مسلمانوں کو اختلاف و انتشار میں مبتلا کرنے اور دین و مذہب کے نام پر ان کو تقسیم کرنے، جہاد کی منسوخی اور انگریز کی اطاعت و فرمانبرداری کا سبق پڑھانے کے لئے ضلع گورداسپور کے ایک ملعون کو مہدیٴ موعود، مثیلِ مسیح، مسیح ِ موعود ، ظلی، بروزی نبی، صاحب ِ شریعت نبی بلکہ تمام انبیاء کرام سے افضل اور برتر ہونے کے دعویٰ پر آمادہ کیا اور اس ملعون نے بالفعل اس کا دعویٰ کرکے امت مسلمہ کو پوری قوت سے للکارنا شروع کردیا۔...اور خود انگریز، جس کی قلم رو میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، پوری قوت و شوکت کے ساتھ اس کی حمایت و پشت پناہی پر تھا... کیا اس وقت بھی مسلمانوں نے اس حکمت عملی کا مظاہرہ کیا تھا؟ یا اس وقت کے ہمارے اکابر نے یہ کہہ کر جان چھڑالی تھی کہ اس سفید ہاتھی کا کیونکر مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ یا ہماری کون سنے گا؟ یا اس کی مخالفت کی صورت میں ہماری جان، مال، آل اولاد جانے کا اندیشہ ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو آج ایسی صورت حال میں ہم کیوں میدان میں نہیں آتے؟
بلکہ اگر دیکھا جائے تو امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے بقول: ”انگریزی دور میں ہمارے بڑوں اور اکابر و اسلاف نے حق کو حق اور باطل کو باطل کہا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا“ انہیں اس حق گوئی کی پاداش میں گرفتار کیا گیا، انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، ان کو برف کی سلوں اور آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا، ان کو الٹا لٹکایا گیا، ان کی ناک، منہ اور آنکھوں میں مرچیں ڈالی گئیں، ان کو ملک بدر کیا گیا، انہیں کالے پانی اور دریائے شور پار پابند سلاسل کیا گیا، مگر بایں ہمہ انہوں نے باطل اور باطل پرستوں سے ایک لمحہ کے لئے سودے بازی نہیں کی، ان تکالیف، اذیتوں اور تشدد کے باوجود وہ جیسے ہی رہا ہوکر جیل سے باہر آتے، پھر سے آوازئہ حق بلند کرتے اور یہ سلسلہ برابر چلتا رہا، یہاں تک کہ انگریز اپنی حشر سامانیوں کے باوجود ملک سے جانے پر مجبور تو ہوگیا، مگر وہ اپنے خود کاشتہ پودے اور نام نہاد جعلی نبی اور اس کی ذریت کی حمایت و سرپرستی کے تسلسل کو برقرار نہ رکھ سکا۔
اگر ہم یا ہمارے اسلاف ان کھلے اسلام دشمنوں کے خلاف آوازئہ حق بلند کرنے سے باز نہیں آئے یا ان کی خیر خواہی میں انہوں نے ایک لمحہ کے لئے کوتاہی برداشت نہیں کی، یا اس سلسلہ کی کوئی اذیت، تکلیف اور ظلم و تشدد ان کی راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکے تو موجودہ دور کے حکمران، سیاسی راہ نما یا اسلام دشمنوں کے سرپرست اگر انگریزوں کی روش پر چلیں تو ہم کیونکر اپنی روش سے ہٹیں گے ؟ دیکھا جائے تو تقسیم ملک کے بعد کے حکمران ہمارے اپنے ہیں، اگر وہ ہمیں اس حق گوئی و بے باکی سے روکیں گے تو انگریزوں سے بڑھ کر ہم ان کی خیر خواہی کریں گے، اور ان کی تکالیف و اذیتوں کے باوجود ہم ان کو یہ باور کرائیں گے کہ انگریز ہمارا دشمن تھا، تم ہمارے بھائی ہو، ہمارا تمہارا دین، مذہب، ایمان، عقیدہ، قرآن، قبلہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰة ایک ہے، ہمارے تمہارے مفادات اور ترجیحات ایک ہیں، ہم اور تم ایک نبی کے پیروکار ہیں، تمہیں انگریزوں اور ان کے خود کاشتہ پودے اور اس کے اسلام مخالف عقائد و نظریات کی حفاظت و صیانت یا باغیانِ اسلام کی سرپرستی کی بجائے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی سے وابستہ افراد، قوم، ملت اور امت کا ساتھ دینا چاہئے، تاکہ کل قیامت کے دن ہمارا تمہارا حشر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ کے لوائے حمد کے نیچے ہو، ہم اور آپ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں، اگر خدانخواستہ آپ نے انگریزوں کی روش پر چلتے ہوئے انگریزی نبی اور اس کی ذریت یا باغیان محمد کی حمایت و تائید کی تو اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ کل قیامت کے دن تمہارا حشر مسلمانوں یا نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کی بجائے انگریزوں، عیسائیوں، یہودیوں اور باغیانِ اسلام کے ساتھ نہ ہو، کیونکہ ”المرأمع من احب“...آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے....
لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی غلط فہمی دور کریں، ان کو باور کرائیں کہ تمہارا یہ طرز عمل کسی کے لئے مضر ہو یا نہ ہو، مگر بہرحال تمہاری دنیا و آخرت کے لئے بے حد نقصان دہ ہے۔ چند روزہ زندگی اور اس کے معمولی مفادات کے لئے اپنی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اور آخرت کو برباد نہ کریں۔
اسی طرح ایسے راہ نماؤں اور لیڈروں سے وابستہ اور ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے کارکنوں کو بتلائیں کہ کل قیامت کے دن کسی سیاسی لیڈر کے ساتھ وابستگی یا اس کی ہمنوائی باعث نجات نہ ہوگی، بلکہ نجاتِ آخرت اور جنت کا فیصلہ حق اور اہلِ حق کی اتباع اور معیت کی بنا پر ہوگا، لہٰذا ایسے لوگ جو کسی باطل پرست کی معیت ورفاقت کی وجہ سے یا اس کی اندھی تقلید میں حق کی اتباع سے دور رہے، کل قیامت کے دن، ان کو ان کے باطل پرست لیڈر اور راہنما نہ صرف یہ کہ نجات نہیں دلاسکیں گے، بلکہ جب ان کو اپنے ان لیڈروں سمیت جہنم میں ڈالا جارہا ہو گا تو کف افسوس ملتے ہوئے کہیں گے: کاش! ہم نے اللہ کے سچے رسولوں کا ساتھ دیا ہوتا، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
”ویوم یعض الظالم علی یدیہ یقول یٰلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلاً، یویلتٰی لیتنی لم اتخذ فلاناً خلیلاً ،لقد اضلنی عن الذکر بعد اذ جاء نی وکان الشیطان للانسان خذولاً ۔“ (الفرقان:۲۷ تا ۲۹)
ترجمہ: ...”اور جس دن کاٹ کاٹ کر کھائے گا گناہ گار اپنے ہاتھوں کو، کہے گا: اے کاش! کہ میں نے پکڑا ہوتا رسول کے ساتھ رستہ، اے خرابی میری، کاش کہ نہ پکڑا ہوتا میں نے فلانے کو دوست، اس نے تو بہکادیا مجھ کو نصیحت سے مجھ تک پہنچ چکنے کے پیچھے اور ہے شیطان آدمی کو وقت پر دغا دینے والا۔“ (ترجمہ شیخ الہند)
اسی طرح جب وہ ایسے ظالم لیڈروں کی اتباع اور اندھی تقلید کے باعث جہنم کا ایندھن بنیں گے تو اپنی ہلاکت و بربادی کا ذمہ دار اپنے لیڈروں کو ٹھہراتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں عرض کریں گے:
”ربنا انا اطعنا سادتنا وکبرآء نا فاضلونا السبیلا، ربنا اٰتہم ضعفین من العذاب والعنہم لعناً کبیراً۔“ (الاحزاب: ۶۸)
ترجمہ: ”اور کہیں گے اے رب! ہم نے کہا مانا اپنے سرداروں کا اور اپنے بڑوں کا پھر انہوں نے چکا دیا ہم کو راہ سے، اے رب! ان کو دے دونا عذاب اور پھٹکار ان کو بڑی پھٹکار۔“ (ترجمہ شیخ الہند)
اس لئے ہم دورِ حاضر کے ایسے روشن خیال مگر دین، مذہب اور آخرت کے اعتبار سے غلط فہمی کا شکار بھولے بھالے مسلمان زعما اور ان کے متبعین سے عرض کریں گے کہ قادیانیوں کی حمایت میں اتنا آگے نہ بڑھ جائیں کہ اسلام کو مورد الزام ٹھہرانے لگیں اور یہ کہنا شروع کردیں کہ ”یہ کون سا اسلام ہے جو قادیانیوں کو قتل کا حکم دیتا ہے؟“ ان کی یہ روش ان کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔
ذرا سوچئے! چند قادیانیوں کی آپس کی ذاتی دشمنی کی بنا پر لڑائی اور قتل کو اسلام کے کھاتے میں ڈالنا کون سی عقلمندی ہے؟ چلئے اگر بالفرض کسی سر پھرے نے یہ اقدام کیا بھی ہے تو قادیانیوں کی حمایت میں اسلام اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا کون سا عدل و انصاف ہے؟ اس کے علاوہ قادیانیوں کی حمایت میں آواز اٹھانے والوں سے کوئی پوچھے کہ کیا کبھی انہوں نے یہ حق گوئی بہادر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سامنے بھی کی ہے؟ جو بیک وقت عراق، افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں نہتے مسلمانوں پر بمباری کرکے لاکھوں بے قصوروں کو نابود کررہا ہے؟
اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو کیا کہا جائے کہ ان کو اسلام، مسلمانوں اور امت ِ مسلمہ سے کیا عداوت ہے کہ ان کی زبان ان کی حمایت میں خاموش ہے؟ اس کے علاوہ ان کو اسلام دشمن افراد، اقوام اور باغیانِ محمد سے کیا دلچسپی اور محبت ہے کہ وہ ان کی حمایت میں اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر میدان میں آگئے ہیں؟ اگر یہ حضرات یہ فرمائیں کہ عراق ،افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے لوگ باغی ہیں اور عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں، اس لئے ان کے خلاف یہ کارروائی کی جارہی ہے، تو کیا ہمیں یہ عرض کرنے کی اجازت دی جائے گی کہ اگر امریکا کے باغیوں کو قتل کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں کے خلاف اقدام کی اجازت کیوں نہیں؟ اور ان کے معاملہ میں اس قدر رواداری کا درس کیوں دیا جاتا ہے؟
پھر اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان کا یہ ارشاد یا اعتراض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول و عمل کے خلاف نہیں جائے گا کہ ”من بدل دینہ فاقتلوہ“ ...جو ارتداد اختیار کرے اس کو قتل کردو... کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اختل، اسود عنسی، اور یہودی سردار کعب بن اشرف کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا؟ کیا یہ بھولے بھالے مسلمان زعما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور قانون کے خلاف بھی بغاوت کا علم بلند کریں گے؟
یہ بات دوسری ہے کہ کسی مرتد و زندیق کو قتل کرنا عام مسلمانوں کا کام نہیں اور اسلام اس کی اجازت بھی نہیں دیتا، لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اسلامی قوانین کی دفعات سے بغاوت پر انسانیت خصوصاً مسلمانوں کو آمادہ کیا جائے۔
ہم بھی اس کے روادار نہیں کہ کسی غیر مسلم یا مرتد کو عام مسلمان قتل کیا کریں، بلکہ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو مسلمانوں کو اس اقدام سے روکا جاتا، لیکن کسی جذباتی مسلمان کے کسی اقدام کو بنیاد بناکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لب کشائی کرنا اپنی آخرت تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 
Flag Counter