Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

1 - 12
آٹھ سالہ پرویزی دور کے کارنامےاور نئی حکومت سے چند گذارشات
آٹھ سالہ پرویزی دور کے کارنامے اور نئی حکومت سے چند گزارشات
الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
خدا خدا کرکے انتخابات ۲۰۰۸ء کا مرحلہ طے پاگیا، ورنہ جناب پرویز مشرف اور ان کے اتحادیوں کی اقتدار پرستی اور قوم و ملک سے ”محبت کے بے پناہ“ جذبات سے نہیں لگتا تھا کہ وہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات ہونے دیں گے۔ چنانچہ انتخابات سے قبل سابقہ اسمبلی سے اگلی پنج سالہ مدت کے لئے اپنی صدارت کی توثیق، نواز شریف کی واپسی پر اس کی دوبارہ ملک بدری، بے نظیر بھٹو کا قتل، بے نظیر کے سانحہ قتل کے موقع پر طے شدہ منصوبہ اور مخصوص حکمت عملی سے ملک بھر میں قتل عام، نجی و سرکاری املاک کا ضیاع، اربوں روپے کا نقصان، ملک بھر میں لاقانونیت کے مظاہروں اور اس موقع پر قوم کی عفت مآب بیٹیوں کی عصمت دری وغیرہ سے یہی لگتا تھا کہ ملک میں مارشل لاء لگ جائے گا یا پھر انتخابات موقوف کردیئے جائیں گے۔ چنانچہ آزاد تجزیہ نگاروں اور بین الاقوامی حالات کو باریک بینی سے دیکھنے والوں کے تجزیئے اور اندیشے بھی کچھ اس سے مختلف نہ تھے۔ بہرحال اس سب کے باوجود انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا، سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوگیا؟ شاید اس کی وجہ کسی کو بھی معلوم نہ ہو، عین ممکن کہ ”اوپر“ سے حکم ہوا ہو؟ یا اپنی ”یقینی کامیابی“ کے زعم نے دھوکا دیا ہو؟ یا پھر کوئی اندرونی بیرونی مجبوری ہو؟ کچھ بھی ہو، موجودہ انتخابات کے نتائج نے پرویز مشرف اور ان کے وفاداروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوکر سامنے آگئی کہ قوم کم از کم صدر پرویز مشرف کے جبرو تشدد، قاف لیگ کی فرعونیت اور ان کی قادیانیت و امریکا نوازی کی روش سے حد درجہ متنفر ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں جناب پرویز مشرف نے پاکستان، پاکستانی عوام، دین دار طبقہ، خصوصاً علماء، طلبہ، شعائر اسلام، مساجد، مدارس کے ساتھ جن ”کرم نوازیوں“ کا مظاہرہ کیا ہے وہ کسی ذکر و تذکرہ کا محتاج نہیں۔ بلاشبہ پرویز مشرف اور قاف لیگ کی شکست اور صدارتی، وزارتی، داخلی، خارجی، بلدیاتی، حکومتی ،غیر حکومتی ذرائع اور ہم خیال نگران حکومت کی چھتری کے باوجود دھڑن تختہ، ایک طرف اگر حیرت انگیز ہے تو دوسری طرف عبرت آموز بھی، دیکھا جائے تو صدر پرویز مشرف اور ان کے اتحادیوں کی ”غیر متوقع“ شکست ان کی قوم و ملک سے بے وفائی، دین دشمنی، مذہب بیزاری، علماء، طلبہ، مدارس، مساجد مخالفت، شعائر اسلام سے عداوت و مخاصمت کا ثمرہ ہے چنانچہ گزشتہ آٹھ سالوں میں پرویز مشرف نے جو جو ”کارہائے نمایاں“ انجام دیئے، ان سب کا بنیادی مقصد صرف اور صرف ملک و ملت، دین و مذہب، علماء، طلبہ اورشعائر اسلام سے عداوت و مخاصمت اور اپنے اقتدار و حکومت کا تحفظ ہی تھا۔ ان کے اس ”سنہری دور“ کا جائزہ لیا جائے تو ان کی حکومت و اقتدار اور قوت و شوکت کا سارا زور صرف اور صرف اسلام، مسلمانوں، مجاہدوں، دین داروں، علماء، طلبہ، مساجد اور مدارس کے خلاف ہی استعمال ہوا ہے، چنانچہ ان کے اس آٹھ سالہ ”تاریخی“ دور میں ان کا کون سا ایسا کارنامہ ہے جس کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا نام دیا جائے؟اور کون سا ایسا کارنامہ ہے، جو قوم و ملک دین و مذہب، یا اسلام و مسلمانوں، علم و عمل، مساجد و مدارس، علماء، طلبہ اور جہاد و مجاہدین کی مخالفت و مخاصمت اور بغض و عداوت پر مبنی تھا اور انہوں نے اُسے انجام نہیں دیا؟ مثلاً: کیا ان کے دور میں پُرامن مسلمانوں کو دہشت گرد، تشدد پسند، اور جنونی باور نہیں کرایا گیا؟ ...کیا پاکستانی شہریوں اورمسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالہ نہیں کیا گیا؟ ...کیا ملک و قوم کے مفاد پر امریکا اور یورپ کے مفادات کو ترجیح نہیں دی گئی؟ ...کیا مسلمانوں سے قطع تعلق اور یہود و نصاریٰ سے پینگیں نہیں بڑھائی گئیں؟... کیا مدارس و مساجد کو مطعون نہیں کیا گیا؟ ...کیا مدارس و مساجد پر بمباری نہیں کی گئی؟... کیا علماء و طلبہ کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا نہیں کیا گیا؟ ...کیا شعائر اسلام کی توہین و تضحیک نہیں کی گئی؟ ...کیا دین دار مسلمانوں پر پاکستان کی زمین تنگ نہیں کی گئی؟ ...کیا مدارس و مساجد پر قدغن نہیں لگائی گئی؟ ...کیا دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی سعی و کوشش نہیں کی گئی؟ ...کیا اسکولوں کے نصاب سے آیاتِ جہاد کو حذف نہیں کیا گیا؟ ...کیا اسکولوں کے نظام تعلیم کو اسلام دشمن آغا خان بورڈ کے حوالے نہیں کیا گیا؟ ...کیا دین دار مسلمانوں کو گالی کا درجہ نہیں دیا گیا؟ ...کیا عوام کو علماء کرام سے بغاوت کا درس نہیں دیا گیا؟ ...کیا علماء کو گالیاں نہیں د ی گئیں؟ ...کیا عریانی و فحاشی کو رواج نہیں د یا گیا؟ ...کیا قوم کی بیٹیوں کو میراتھن ریس میں نہیں دوڑایا گیا؟ ...کیا اکابر علماء ،صلحاء کا قتل عام نہیں کرایا گیا؟ ...کیا دینی اجتماعات پر نام نہاد خودکش حملے نہیں کرائے گئے؟ ...کیا افغانستان جیسے اسلامی ملک کی تباہی و بربادی میں معاونت نہیں کی گئی؟ ...کیا امریکا کو لاجسٹک سپورٹ اور پاکستانی ہوائی اڈے نہیں دیئے گئے؟... کیا پاکستانی فوج کے امتیاز جہاد فی سبیل اللہ کی دھجیاں نہیں بکھیری گئیں؟ ...کیا پاکستانی قوم، ملک اور اس کی تمام فورسز کو امریکا کے مفادات کے سامنے ڈھیر نہیں کیا گیا؟ ...کیا اپنے شہریوں کے خلاف فوج کشی نہیں کی گئی؟ ...کیا وانا اور وزیرستان کے وفادار شہریوں کے خلاف آپریشن نہیں کئے گئے؟ ...کیا سوات کے مسلمانوں کا قتل عام نہیں کیا گیا؟ ...کیا مسلمانوں کو مسلمانوں سے نہیں لڑایا گیا؟ ...کیا لال مسجد و مدرسہ حفصہ کے ہزاروں معصوم و نہتے طلبہ و طالبات کو توپوں سے نہیں اڑایا گیا؟ ...کیا ان شہیدوں پر فاسفورس بم نہیں برسائے گئے؟ ...کیا ان کی لاشوں کے چیتھڑے نہیں اڑائے گئے؟ ...کیا ان معصوموں کی لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی گئی؟ ...کیا مساجد و مدارس کا تقدس پامال نہیں کیا گیا؟ ...کیا فوج، رینجرز اور پولیس کو اپنے ہی شہریوں سے نہیں بھڑایا گیا؟ ...کیا فوج، رینجرز اور پولیس کا وقار مجروح نہیں کیا گیا؟ ...کیا آزاد عدلیہ پر شب خون نہیں مارا گیا؟ ...کیا انصاف پسندوں کو قید تنہائی میں نہیں رکھا گیا؟ ...کیا پی، سی، او، مسلط نہیں کیا گیا؟ ...کیا ججوں کو پی، سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور نہیں کیا گیا؟ ...کیا قانون توہین رسالت کو معطل نہیں کیا گیا؟ ...کیا حدود آرڈی نینس کو ختم نہیں کیا گیا؟ ...کیا بے حیائی و بے شرمی پر مشتمل نسواں بل منظور نہیں کرایا گیا؟ ...کیا سرحد میں پیش ہونے والے حسبہ بل کی راہ نہیں روکی گئی؟ ...کیا ۵۸-۲-بی مسلط نہیں کیا گیا؟ ...کیا ملک میں ایمرجنسی نافذ نہیں کی گئی؟ ...کیا غیر مسلم این جی اوز اور دوسرے لادین عناصر کو کھلی چھوٹ نہیں دی گئی؟ ...کیا محسن پاکستان اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی توہین نہیں کی گئی؟ ...کیا ان کو پابند سلاسل نہیں کیاگیا؟ ...کیا ملکی معیشت کو تباہ نہیں کیا گیا؟ ...کیا مہنگائی کو عروج نہیں دیا گیا؟ ...کیا غریبوں کا استحصال نہیں کیا گیا؟ ...کیا پاکستانی شہریوں کو بنیادی سہولیات سے محروم نہیں کیا گیا؟ ...کیا قاتلوں، دہشت گردوں اور ملکی امن و امان کے دشمنوں کی سرپرستی نہیں کی گئی؟ ...کیا ذرائع ابلاغ پر قدغن نہیں لگائی گئی؟ ...کیا حق کی آواز کو نہیں دبایا گیا؟ ...کیا اپنے حامیوں کو نوازا اور مخالفین کو ٹھکانے نہیں لگایا گیا؟ ...کیا قادیانیوں کی حمایت نہیں کی گئی؟ ...کیا ان کو ارتدادی تبلیغ کی کھلی آزادی نہیں دی گئی؟ ...کیا اسلام دشمن امریکا کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخیل نہیں کیا گیا؟ ...کیا انہیں پاکستانی علاقوں میں کارروائی کی چھوٹ نہیں دی گئی؟ الغرض قوم و ملک کی ۶۱ سالہ تاریخ کو مسخ کیا گیا اور ۸ سال پہلے کے پاکستان کی خوبصورت تصویر کو یکسر مسخ کرکے اسے ایک اپاہج و لولے لنگڑے ملک اور پاکستانی قوم کو نہایت بے غیرت و بزدل بناکر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ پرویزی دور سے پہلے اگر ایک مزدور و ملازم پیشہ اپنی یومیہ اجرت سے گھر کا چولہا جلا سکتا تھا تو آج ملک کی معاشی ابتری اور ہوش ربا مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ کوئی سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے سے عاجز ہے۔ ہاں! ہاں! یہ ان کی انہیں ”کامیاب“ معاشی پالیسیوں کی برکت ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک کی عوام آٹے جیسی بنیادی چیز سے محروم ہے اور اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے سے عاجز ہے۔ چنانچہ ان کے ”ترقی یافتہ“ دور سے پہلے جو آٹا عموماً دس بارہ روپے میں مل جاتا تھا، خیر سے اب وہ ۳۰ ،۳۵ روپے میں بمشکل دستیاب ہوتا ہے، اس طرح کل تک جو خوردنی تیل اور گھی پچاس روپے کلو میں مل جاتا تھا، چشم بددور اب وہی ایک سو تیس روپے میں بمشکل ہاتھ آتا ہے، اسی طرح پیٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی، لوہا، سیمنٹ اور دوسری اشیائے ضرورت آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اسی طرح ان کی دی گئی ”خوشحالی“ کی ”برکت“ ہے کہ ایک متوسط آمدنی والے سفید پوش کے لئے مکان خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، چنانچہ جناب پرویز مشرف کی حکومت سے قبل جو مکان عام طور پر دس پندرہ لاکھ میں مل جاتا تھا، وہی اب پچاس ساٹھ لاکھ کا ہے، کیا کہا جائے کہ ان کے دور میں ملک نے ترقی کی ہے؟ یا تنزلی؟ دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اور افراطِ زر کا یہ عالم ہے کہ ہمارے بعد آزاد ہونے والا بنگلہ دیش معاشی طور پر اتنا مستحکم ہوچکا ہے کہ اس کا ٹکہ پاکستانی روپے کو مات کرگیا ہے، انڈین کرنسی کہیں آگے جاچکی ہے، انڈین مصنوعات نے عرب ممالک کے علاوہ پورے یورپ میں اپنا مقام بنالیا ہے ، اس کے مقابلہ میں پاکستان کا یہ حال ہے کہ اس کا تمام تر انحصار غیر ملکی مصنوعات پر ہے۔ جبکہ ہمارا حریف اور ازلی دشمن بھارت اس وقت وہیکل مصنوعات کے میدان میں نہ صرف خود کفیل ہے، بلکہ انڈین ساختہ گاڑیاں برآمد ہورہی ہیں اور ہم ہیں کہ معمولی سوئی تک باہر سے برآمد کرتے ہیں۔ جو لوگ اس ملک و قوم کی موجودہ ”ترقی اور خوشحالی“ پر دل گرفتہ اور آزردہ خاطر ہیں اور وہ ملک و قوم کی معاشی و اقتصادی ابتری پر خون کے آنسو روتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس کی تباہی و بربادی میں جہاں اس ملک پر مسلط خود غرض لٹیروں، ناعاقبت اندیش لیڈروں، وڈیروں اور مفاد پرستوں کی لوٹ مار کا ہاتھ ہے، وہاں اس کی معاشی و اقتصادی ابتری میں فوجی مارشلاؤں کا بھی بہت بڑا دخل ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ: ”ہمارے حریف اور دشمن انڈیا میں آج تک کبھی فوج نے منتخب حکومت کو بائی پاس نہیں کیا اور اس کے اندر مارشل لاء نہیں لگا، دوسری جانب چشم بددور پاکستان میں آئے دن مارشل لاء اور فوجی بوٹوں کا شور سنائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے ”خان بہادروں“ نے سب سے زیادہ پاکستان پر حکومت کی اور ملک و قوم کا استحصال کیا ، ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر قسم کی فورسز قوم و ملک، عدلیہ اور مقننہ کی معاونت اور ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہوتی ہیں، مگر اے کاش! کہ پاکستان میں ان کی خدمات کا تصور یکسر مختلف ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ مستحکم و مال دار ادارے انہی کے ہیں اور ملکی خزانہ سے سب سے زیادہ فوائد حاصل کرنے والے بھی یہی ہیں، چنانچہ سروے کیجئے! تو اندازہ ہوگا کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ مہنگی املاک انہی کے قبضہ میں ہیں اور سب سے زیادہ قیمتی مکانات و پلاٹس بھی وہی شمار ہوتے ہیں، جنہیں ڈیفنس کے لاحقے سابقے کا اعزاز حاصل ہو، اسی طرح سب سے زیادہ صاف ستھرے علاقے بھی وہی کہلاتے ہیں، جہاں ان ”معززین“ کا بسیرا ہو اور سب سے پُرامن اور پُرسکون آبادی بھی وہی ہوتی ہے، جس کے نام کے ساتھ ”عسکری“ یا ڈی ایچ اے کی ”معزز“ نسبت ہو۔ دوسری جانب پاکستان میں ہمارے پاسبانوں نے ملک و قوم اور دین و مذہب کے لئے جو کچھ کیا ہے؟ اس کی تفصیلات بھی سب کے سامنے ہیں۔“ اس سے انکار نہیں کہ ہر جگہ ایمان دار، دیانت دار، فرض شناس، ملک و قوم کے خیر خواہ اور دین و مذہب کے وفا شعار ہوتے ہیں، بلاشبہ ہماری فورسز میں بھی اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے، مگر افسوس کہ ان کو اوپر نہیں آنے دیا جاتا، ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور ان کی آواز کو پوری قوت سے دبا دیا جاتا ہے۔ بہرحال ان کے خیال میں اکیلی فوج یا فورسز ہی اس کے ذمہ دار نہیں، بلکہ اس میں مفاد پرست سیاست دان اور بدکردار اسٹیبلشمنٹ بھی برابر کی شریک ہے، چنانچہ ہمارے ہاں کی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے بزرچ مہروں کی کمی نہیں، جو امن و امان کے ذمہ داروں اور سرحد کے پاسبانوں کو یہ راہ سجھاتے ہیں کہ وہ حکومت و اقتدار پر قبضہ کریں اور راحت و عیش کے مزے لوٹیں، اسی طرح ہمارے روشن خیال سیاست دانوں اور بدکردار لٹیروں کی اکثریت بھی اپنی سیاہ کاریوں کا تحفظ اس طاقتور اکائی کی چھتری میں سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آئے دن ملکی سرحدوں کے پاسبان ایوانِ اقتدار میں داخل ہوتے ہیں اور پھر نکلنے کا نام نہیں لیتے، ٹھیک اسی طرح جناب جنرل پرویز مشرف صاحب کو ایوانِ صدر میں آنے کے بعد حکومت و اقتدار کا ایسا چسکہ لگا کہ وہ ہر حال میں حکومت و اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں، وہ کسی صورت اس سے الگ ہونا نہیں چاہتے، چنانچہ اس کے لئے انہوں نے وہ سب کچھ کیا جس کے تصور سے ایک شریف شہری، باغیرت انسان اور با حیاء مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کی اسی ”خوشنما“ پالیسیوں، کارروائیوں، کارناموں اور طرز عمل سے ”خوش“ ہوکر پاکستانی قوم نے اس بار جناب پرویز مشرف اور ان کے اتحادیوں سے جان چھڑانے کی کوشش میں ان کو مسترد کردیا ہے اور کھل کر ان سے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ہے، مگر جناب صدر ہیں کہ ”قصر صدارت“ سے جانے کا نام نہیں لیتے۔ ……………………… ا ب جبکہ ق لیگ اور پرویزی قیادت اپنے انجام کو پہنچ چکی اور پاکستانی عوام نے پی پی پی اور مسلم لیگ نواز شریف کو بام اقتدار تک پہنچادیا ہے اور خیر سے پی پی پی، نواز شریف اشتراک سے ایک نئی حکومت قائم ہوچکی ہے، تو ہم برسر اقتدار اتحاد اور موثر پارٹیوں کے ذمہ داروں سے عرض کرنا چاہیں گے کہ: حکومت و اقتدار اور کرسی و اختیارات ایسی چیزیں ہیں کہ اچھے اچھوں کے دماغ ٹھکانے نہیں رہتے، وہ زمین پر رہتے ہوئے بھی آسمان کی باتیں اور نعوذباللہ خدائی دعوے ہانکنے لگتے ہیں اور یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں بلکہ واقعاتی اور مشاہداتی حقائق ہیں، چنانچہ تاریخ عالم کا مطالعہ کیجئے! تو اندازہ ہوگا کہ دنیا میں ایسے بہت سے احمق ہوئے ہیں، جن کو قوت و طاقت کے نشے اور چند روزہ حکومت و اقتدار کے سودا نے پاگل کردیا تھا، چنانچہ نمرود، فرعون، ہامان، شداد، قارون، ابرہہ، قیصر اور کسریٰ وغیرہ بیچارے اسی سودا کے مریض تھے، دور کیوں جایئے! ہمارے ملک کے عزت مآب صدر جناب پرویز مشرف بھی کل تک اسی غلط فہمی کا شکار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے:
”اب نواز شریف اور بے نظیر واپس نہیں آسکتے اور اب ان کا اس ملک کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔“
نمرود، فرعون ہامان، شداد اور ابرہہ وغیرہ تو منکرین خدا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و قوت کے قائل نہ تھے، تو کیا جناب پرویز مشرف بھی اللہ کی قوت و قدرت کے قائل نہ تھے؟ نہیں، نہیں! وہ تو اپنے تئیں سیّد اور آلِ رسول ہونے کے دعویدار اور اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت کے قائل تھے، پھر سوال یہ ہے کہ ان تعلّی آمیز دعوؤں کا کیا معنی؟ دراصل بات یہ ہے کہ حکومت و اقتدار نے ان کی عقل و فہم اور شعور و ادراک پر پردے ڈال رکھے تھے۔ اس لئے وہ بھی وہی کچھ کہنے اور کرنے لگے جو ان کے پیش روؤں نے کہا اور کیا۔ اے کاش! ان کو اس کا احساس و ادراک ہوجاتا کہ ہماری قوت و قدرت اور حکومت و اقتدار سے بالاتر بھی کوئی ذات اور ہستی ہے، جو دنیا بھر کی قوت و قدرت، طاقت و ہیبت ، شوکت و صولت او رحکومت و اقتدار کے خزانوں کی مالک ہے، وہ جب اور جس کو چاہے حکومت و اقتدار سے محروم کرسکتی ہے، وہ چاہے تو کسی بڑے سے بڑے مطلق العنان حکمران، اور ڈکٹیٹر و آمر کو پل بھر میں تخت سے تختہ و دار تک پہنچاسکتی ہے، وہ ایک لمحہ میں کمزوروں کو طاقت ور اور طاقت وروں کو کمزور اور عزت داروں کو ذلیل اور ذلیلوں کو معزز بناسکتی ہے، اسی طرح وہ حاکموں کو محکوم اور محکوموں کو حاکم بناسکتی ہے، چنانچہ اس نے اپنی اسی قوت و طاقت اور اختیار و اقتدارکا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
”قل اللّٰہم مالک الملک تؤتی الملک من تشأ وتنزع الملک ممن تشأ وتعز من تشأ و تذل من تشأ بیدک الخیر، انک علی کل شئی قدیر۔“ (آلِ عمران: ۲۶)
ترجمہ: ”تو کہہ یا اللہ! مالک سلطنت کے، تو سلطنت دیوے جس کو چاہے اور سلطنت چھین لیوے جس سے چاہے اور عزت دیوے جس کو چاہے اور ذلیل کرے جس کو چاہے، تیرے ہاتھ میں ہے سب خوبی، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔“ بلاشبہ اگر پرویز مشرف اور ان کے اسلاف کو ذرہ بھر اس کا احساس و ادراک ہو جاتا تو یقینا اس غلط فہمی کا شکار ہوتے اور نہ ہی وہ بلند و بانگ دعوے کرتے۔ بہرحال جس طرح نمرود، فرعون، ہامان، شداد اور ابرہہ وغیرہ اپنے اپنے انجام کو پہنچ گئے اور ان کی غلط فہمیاں دور ہوگئیں، ٹھیک اسی طرح ہمارے صدر محترم کی غلط فہمی بھی دور ہوگئی، کیونکہ قدرت نے ان کی صدارت کے دور میں انہیں یہ منحوس دن دکھا دیئے کہ جن لوگوں کو انہوں نے بیک بینی و دو گوش ملک سے بے دخل کیا تھا اور انہیں بدکردار و کرپٹ باور کراتے نہیں تھکتے تھے، آج وہ انہیں کو اختیارات منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے اور جن کے خلاف وہ ہر بیان و تقریر میں بھڑاس نکالتے تھے، آج وہ انہیں کے سامنے بے بسی اور خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ اس لئے ہم موجودہ حکومت کے ناخداؤں خصوصاً نواز شریف اور پی پی پی کے بڑوں سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ اس کوچہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھیں، کہیں انہیں بھی یہ موذی اور ”موروثی“ مرض نہ لگ جائے اور وہ بھی اقتدار کے نشے میں بد مست و مدہوش نہ ہوجائیں، لہٰذا پہلے سے اس کی احتیاطی تدابیر کرلیں، خدانخواستہ کہیں ان کا بھی ویسا ہی حشر نہ ہو، لہٰذا ان کو درج ذیل امور کا بطور خاص لحاظ رکھنا چاہئے: ....tپی پی پی اور نواز شریف اتحاد کے بارہ میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ اتحاد زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوگا، اس لئے عین ممکن ہے کہ ان کے مخالفین ان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کریں لہٰذا ان ہر دو بڑی جماعتوں کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ اپنے طرز عمل سے اس تأثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں، اس کے لئے ضروری ہے کہ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں، معمولی معمولی اختلاف کو ہوا دینے سے احتراز کریں، جیو اور جینے دو کے فلسفہ پر عمل کریں۔ الغرض ذاتی مفادات اور اغراض سے بالاتر ہوکر ملکی مفادات کو ترجیح دیں، اگر انہوں نے اس روش کو نہ اپنایا تو اندیشہ ہے کہ بہت جلد ان کی راہیں الگ ہوجائیں گی اور اس کا فائدہ ان کے مخالفین اور ملک دشمنوں کو ہوگا۔ ....tانہیں اپنے طرز عمل سے اس تہمت کا ازالہ بھی کرنا چاہئے کہ وہ کسی بڑی ڈیل یا امریکی مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کے نتیجے میں برسراقتدار آئے ہیں۔ ....t ضروری ہے کہ سابقہ حکومت کی ملک، قوم اور اسلام دشمن پالیسیوں سے ہٹ کر ملک و قوم کے مفاد پر مبنی پالیسیاں بنائی جائیں، اگر خدانخواستہ انہوں نے بھی سابقہ حکومت کی ملک دشمن پالیسیوں اور امریکی مفادات کے تحفظ کے تسلسل کو برقرار رکھا تو بہت جلد عوام ان سے بھی بدظن ہوجائے گی۔ ....t حکومت و اقتدار کو اپنی موروثی جاگیر یا جائیداد نہ سمجھیں، بلکہ اس کو قومی امانت اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و عطا سمجھیں۔ ....t اقتدار و اختیارات کے استعمال میں احتیاط و اعتدال کے دامن کو تھامے رکھیں۔ ....t ہر معاملہ کو نہایت سوچ و بچار اور غوروتدبر کی عینک لگاکر دیکھیں۔ ....t انتقام و جذباتیت سے بالاتر ہوکر حلم و تدبر کو اپنائیں اور ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی و خیر سگالی کا برتاؤ کریں۔ ....t جوش میں بھی ہوش کا دامن تھامے رکھیں اور کچھ بھی ہو، اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھیں۔ ....t سابقہ حکومت اور اس کے کارپردازوں سے جو جو غلطیاں ہوئی ہیں اور جن کی وجہ سے ان کو مسترد کیا گیا ہے، ان سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ ....t پسے ہوئے عوام اور مظلوم طبقہ کی مظلومیت کا مداوا کریں اور ان کی بنیادی ضرورتوں اور جائز شکایتوں کا ازالہ کریں۔ ....t سابقہ حکومت نے ۷۳ ۱۹ء کے آئین میں جو جو ناروا ترامیم کی ہیں، ان کو یکسر ختم کرکے آئین کو پرویزی دور سے پہلے کی حیثیت پر بحال کریں۔ ....t اسکولوں کے نصابِ تعلیم سے خارج کی گئی آیاتِ جہاد اور مسلم اکابر کے تذکرہ کو دوبارہ نصاب میں شامل کریں اور نظام تعلیم کو آغا خان بورڈ سے واگزار کرائیں۔ ....t سابقہ حکومت نے اپنے ظالمانہ دور میں جن مساجد، مدارس کو ڈھاکر اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دیا تھا، ان تمام کی بحالی، تعمیر و ترقی کے احکام جاری کریں۔ ....t مدرسہ حفصہ اور لال مسجد کے خلاف کی گئی کارروائیوں کی تحقیقات کرائیں اور ان گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد و ایجنسیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کریں اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں۔ ....t جو معصوم اس خونی معرکہ میں شہید ہوگئے ہیں، ان کے ورثا کو ان کی دیت ادا کرنے کے احکام جاری کئے جائیں۔ ....t وہ پاکستانی مسلمان، جو سابقہ آمروں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، اگر وہ جیلوں میں ہیں تو ان کو باعزت بری کریں اور ان کو آزادانہ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں۔ ....t مدرسہ حفصہ، لال مسجد اور جامعہ فریدیہ کی سابقہ حالت بحال کریں اور ان کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دی جائے اسی طرح لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو رہا کرکے حسب سابق لال مسجد اور جامعہ فریدیہ میں خدمات انجام دینے کی اجازت دی جائے۔ ....t وانا ،وزیرستان اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوں کے خلاف فوج کشی اور آپریشن بند کیا جائے۔ ....t اپنے ہی شہریوں کو اپنا مخالف بنانے کی روش ترک کی جائے۔ ....t امریکا اور یورپی یونین کو ملکی معاملات میں مداخلت سے روکا جائے۔ ....t افغانستان اور خصوصاً وہاں کی دین دار اکثریت کو اپنا مخالف بنانے کی بجائے ان سے برادرانہ تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ ....t اگر پوری ملت کفر ایک برادری ہے اور دنیا بھر کے غیر مسلم اپنے مفادات میں ایک دوسرے کے معاون و ہم نوا بن سکتے ہیں تو ہمیں بھی کفار کی بجائے مسلمانوں کے مفادات کے لئے یک زبان ہوکر آواز اٹھانی چاہئے، اور کفار و معاندین کے بجائے مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہئے۔ ....t دینی مدارس کے نظام اور ان کے طریقہ تعلیم کو چھیڑنے کے بجائے ان کے آزادانہ کردار کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ....t مسلمانوں کو دہشت گرد، تشدد پسند باور کرانے کے مغربی پروپیگنڈا کا بھرپور دفاع کیا جائے۔ ....tایٹمی پروگرام کو حسب سابق آزادی سے جاری رکھا جائے اور اس سلسلہ کے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آزاد کرکے ان سے معافی مانگی جائے اور ان کی خدمات کے عوض ان کو سرپرائز اور قومی ہیرو کا اعزاز دیا جائے۔ ....t وہ پاکستانی حضرات جو لا پتہ ہیں اور ایک عرصہ سے ان کے متعلقین کرب و اذیت سے دو چار ہیں، ان کو بازیاب کیا جائے اور آئندہ کسی پاکستانی کو کسی کے کہنے پر ہراساں نہ کیا جائے۔ ....t جن بے قصوروں کو سابقہ حکومت نے امریکا کے حوالہ کیا تھا اور وہ گزشتہ آٹھ سال سے امریکا کی اذیت ناک قید میں ہیں، ان کی واپسی اور رہائی کا بندوبست کیا جائے۔ ....t آزاد و خود مختار عدلیہ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے۔ ....t قومی اور ملکی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے اور ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس لی جائے۔ ....t آئندہ کے لئے قانون سازی کی جائے کہ بیرون ملک سے آنے والے یا کسی دوسرے ممالک کی شہریت رکھنے والے کسی بزرچ مہر کو پاکستان کے کسی حساس عہدہ اور منصب پر فائز نہ کیا جائے، تاکہ معین قریشی اور شوکت عزیز ایسے امریکی مہروں کی راہ روکی جاسکے۔ ....t اسی طرح یہ قانون بنایا جائے کہ اس ملک کی صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والا کوئی شخص ان عہدوں سے سبکدوش ہونے کے بعد پانچ سال تک پاکستان سے نقل مکانی نہیں کرسکے گا۔ ....t ایسے اہم اور حساس عہدوں سے سبکدوش ہونے والوں کا مکمل احتساب کیا جائے اور اس عرصہ میں انہوں نے ملک و قوم کو کیا نفع یا نقصان پہنچایا؟ اس کا جائزہ لیا جائے۔ ....tملک میں موجودہ معاشی بحران کا دیرپا حل تلاش کیا جائے اور خصوصاً اشیائے صرف کی قیمتوں پر کنٹرول کا قانون بنایا جائے۔ ....t ملک سے فرقہ واریت، لسانی اور قومی عصبیت کے عفریت کا خاتمہ کیا جائے، لہٰذا ایسی تمام جماعتیں اور سربراہ جو اس سلسلہ میں موٴثر کردار ادا کرسکتے ہوں، ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ....t قتل و غارت، چوری، ڈکیتی، بھتہ، رشوت اور اسلحہ کلچر کا سدباب اور خاتمہ کیا جائے۔ ....t ملک و قوم کی معاشی اور اقتصادی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے، غیروں پر انحصار و تکیہ کرنے کی بجائے خودداری و خود انحصاری کا مظاہرہ کیا جائے، اس کے لئے اپنی معدنیات، ملکی مصنوعات اور زرعی پیداوار پر خصوصی توجہ دی جائے، کاشت کاروں، صنعت کاروں، تاجروں اور ہنر مندوں کی سرپرستی کی جائے اور ان کی ضروریات کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ ....t ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جگہ، اپنی قومی اور ملکی کمپنیوں اور صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کو ممکنہ حد تک مراعات اور چھوٹ دی جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ملک و قوم کی ضرورت پوری کرسکیں اور زر مبادلہ ملک سے باہر جانے کی بجائے ملک میں رہنے کا انتظام کیا جاسکے۔ ....t پاکستان کے ذہین، ہنر مند، تعلیم یافتہ اور باکردار افراد کی قدر افزائی کی جائے اور ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور ان کی حفاظت و تحفظ کا انتظام کیا جائے۔ ....t اقربا پروری اور سفارش کلچر کا خاتمہ کیا جائے، تمام تقرریاں صلاحیتوں اور میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں۔ ....t ٹی وی کے ذریعہ پھیلنے والے عریانی، فحاشی اور بے دینی کے سیلاب کے سامنے بند باندھا جائے، ٹی وی کی تباہ کاریاں کسی سے پوشیدہ نہیں تاہم ایسے ٹی وی اور کیبل پروگرام جو فحش اور ننگی فلمیں دکھاتے ہوں، ان کو نہ صرف بند کیا جائے، بلکہ ایسے افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے، اسی طرح ایسے ڈرامے یا فلمیں جو قتل و غارت یا مار دھاڑ کے مناظر دکھاتے ہوں، ان پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ ایسے پروگراموں سے نئی نسلوں کی اخلاقی قدریں تباہ و برباد ہورہی ہیں، اس لئے کہ بچے ٹی وی اور کیبل میں جو کچھ دیکھتے ہیں، اسے اپنانے اور اس کی نقل اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ....tقوم و ملک کی خدمت کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو باکردار ملک و ملت کے وفادار اور اللہ و رسول کے اطاعت شعار ہوں، کیونکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار نہ ہوں، وہ کبھی بھی ملک و قوم کے وفادار نہیں ہوسکتے، چنانچہ اس کی زندہ مثال پاکستان کا پہلے وزیر خارجہ ظفراللہ قادیانی تھا، جس نے اپنے وزارت خارجہ کے دور میں پاکستان کے مفادات کی بجائے قادیانی مفادات کا تحفظ کیا، اگر اس کے دور کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانے قادیانی تبلیغ و ترویج کے اڈے تھے، چنانچہ ظفراللہ قادیانی جہاں جاتا، ملکی و سفارتی معاملات کی بجائے اپنے قادیانیوں کی خیر خبر لیتا تھا۔ ....tاربابِ اقتدار کو چاہئے کہ سادگی اور کفایت شعاری کو رواج دیں، چنانچہ پہلے خود اس پر عمل کریں پھر اپنے وزیروں اور مشیروں کو اس کا پابند کریں، ملکی خزانہ کو قومی امانت سمجھیں، خود کھائیں اور نہ کسی کو اس پر ہاتھ صاف کرنے دیں۔ ....tجمعہ کی چھٹی بحال کی جائے، کیونکہ یہ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کی شناخت ہے، مزید یہ کہ اس سے مسلمانوں کو جمعہ پڑھنے کی بھی سہولت ہوگی۔ ....tپاکستانی مصنوعات میں کوالٹی کنٹرول سسٹم متعارف کردیا جائے اور پاکستانی مصنوعات کا معیار اس قدر بلند کیا جائے کہ خریدار دوسرے ممالک کی مصنوعات کے مقابلہ میں اپنے ملک کی مصنوعات کو ترجیح دے، اس طرح بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات بہت جلد اپنا مقام بنالیں گی۔ ....tحسب سابق اسلامی نظریاتی کونسل کو فعال بنایا جائے اور اس کے ارکان و چیئرمین کے لئے کم از کم دین دار مسلمان ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ ....tقانون توہین رسالت میں کی گئی تبدیلیوں کو منسوخ کرکے اس کو سابقہ حالت میں بحال کیا جائے۔ ....tسابقہ حکومت کے منظور کردہ رسوائے زمانہ تحفظ نسواں بل کو ختم کرکے حدود آرڈی نینس کو بحال کیا جائے۔ ....tصوبہ سرحد میں پیش اور منظور ہونے والے حسبہ بل کو نافذ کیا جائے، پورے پاکستان میں برطانوی دور کی تعزیرات ہند کی جگہ قرآن و سنت کا قانون رائج کیا جائے۔ ....tتحفظ ناموس رسالت کا قانون پاس کیا جائے اور قرار دیا جائے کہ جو شخص حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی تک کسی بھی اللہ کے نبی و رسول کی توہین کا مرتکب ہوگا، چاہے وہ کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اسے سزائے موت دی جائے گی۔ ....tایسے ممالک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پامال کرنے، توہین آمیز خاکے بنائے یا دل آزار فلمیں بنانے کے مرتکب ہوں، ان سے تجارتی اور سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا جائے اور ان کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ ....tکسی قادیانی اور مرزائی یا اسلام دشمن کو کسی حساس عہدہ پر فائز نہ کیا جائے ورنہ عین ممکن ہے کہ جس طرح سابقہ حکومت میں غدارانِ نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی کی اولاد نے پرویز مشرف اور چوہدری برادران کی لٹیا ڈبوئی ہے، کہیں ان کی نحوست کا وبال آپ کی حکومت کے زوال کی شکل میں سامنے نہ آجائے۔ ....tجس طرح پی پی پی نے پنجاب کے ضلع تونسہ میں ایک مشہور قادیانی کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے کر اپنی ساکھ خراب کی ہے، آئندہ ایسی غلطی نہ دھرائی جائے۔ ....tسب سے آخر میں یہ کہ موجودہ انتخابات میں قوم نے آپ پر اعتماد کیا ہے تو آپ کو بھی قوم کے اعتماد کی لاج رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہئے۔ ....tاسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوم و ملک کی خدمت کا ایک اور موقع دیا ہے تو آپ اس کی قدر کریں، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی بہترین شکل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کی جائے قوم کو عدل و انصاف مہیا کیا جائے مظلوموں کے ظلم کا مداوا کیا جائے اور خود بھی ظلم و تعدی اور جبر و تشدد سے مکمل پرہیز کیا جائے حتی کہ اپنے کھلے مخالفوں کو بھی ظلم و تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ....tحکومت و اقتدار آنے جانے والی چیز ہے اور حکومت و اقتدار کا ہُما کسی ایک جگہ نہیں بیٹھا کرتا بلکہ آئے دن اپنا ٹھکانہ بدلتا رہتا ہے، آج آپ کے سروں پر ہے تو کل کسی اور کے سر پر بھی بیٹھ سکتا ہے۔ اس لئے اپنے چولے میں رہیں، اور یہی بات اپنے کارکنوں اور شریک اقتدار وزیروں اور مشیروں کو بھی سمجھائیں۔ اگر ان معروضات پر غور کرلیا گیا تو ہم یقین سے کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت نہ صرف اپنی مدت پوری کرے گی بلکہ آئندہ پانچ سالہ مدت کی حکومت بھی آپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی۔
واللّٰہ یقول الحق وہو یہدی السبیل۔ وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 
Flag Counter