Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

1 - 12
انحطاط و تنزل کی انتہاء
انحطاط و تنزل کی انتہاء


الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں، کسی قدر معمولی غوروفکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارا دور کہیں وہی نہ ہو، نہیں تو وہ دور ہم سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے، اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عن موسیٰ بن ابی عیسیٰ المدینی: قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کیف بکم اذا فسق فتیانکم وطغیٰ نسأکم؟ قالوا یا رسول اللہ! وان ذالک لکائن؟ قال نعم و أشد منہ، کیف بکم اذا لم تأمروا بالمعروف وتنہوا عن المنکر؟ قالوا یا رسول اللہ وان ذالک لکائن؟ قال نعم و اشد منہ کیف بکم اذا رأیتم المنکر معروفاً والمعروف منکراً۔‘ ‘ (کتاب الرقائق، ابن مبارک ص:۴۸۴)
ترجمہ:… ”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے۔“
ہمارے معاشرے کی بدلتی قدروں اور شر و فتنہ کی نت نئی شکلوں کا جائزہ لیجئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب ہم جس طرح بڑی بڑی برائیوں اور فحاشی و غلاظت کی ایمان شکن کارروائیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کررہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ایمان و ایقان کی قوت مدافعت جواب دے چکی ہے اور ہمارے دلوں سے ایمانی غیرت اور دینی حمیت رخصت ہوچکی ہے، اور ہماری ایمانی روح مرچکی ہے ۔ اب ہمیں اچھے اور بُرے کی تمیز نہیں رہی، اور ہمارے دل و دماغ اب فحاشی و عریانی کی غلاظت سے اٹھنے والی سرانڈ کے عادی ہوچکے ہیں، اب ہمیں کوئی بُرائی، بُرائی نہیں لگتی اور کسی اچھائی کی مشام جاں کو معطر کرنے والی خوشبو سے ہم نامانوس ہوچکے ہیں۔ چنانچہ آئے دن دنیا جہاں میں اسلام، شعائر اسلام پر حملے ہوتے ہیں اور ہم ان کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم اور برداشت کرجاتے ہیں، دنیائے کفر کے دریدہ دہن، اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، مگر ہماری پیشانیوں پر بل نہیں پڑتا، اسلام دشمن، ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، ان کی توہین و تنقیص کرتے ہیں، ان کے خلاف توہین آمیز خاکے شائع کرتے ہیں، ان کے خلاف دل آزار کتابیں اور مضامین لکھتے ہیں، مگر ہماری جبین نیاز پر پسینہ نہیں آتا، دنیائے کفر ایسے بدباطنوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے انہیں ”سر“ کا خطاب دیتی ہے، مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ہم احتجاج کے دو بول بولنے کا تکلف بھی نہیں کرتے، اسی طرح وہ مکہ و مدینہ پر حملہ کا اعلان کرتے ہیں مگر ہماری رگ حمیت نہیں پھڑکتی۔ مسجدیں اور مدرسے گرائے جاتے ہیں، ان پر بمباری کی جاتی ہے، مگر ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی، بلکہ ہم دو قدم آگے بڑھ کر ان کے عزائم کی تکمیل میں اپنے فوجیوں اور اپنے خزانہ سے خریدے گئے اسلحہ سے نفاذ اسلام کا مطالبہ کرنے والے لال مسجد و مدرسہ حفصہ کے علماء، طلبہ، طالبات ،ہزاروں معصوم بچوں، بچیوں، بیواؤں اور یتیموں کو فاسفورس بم برساکر کوئلہ کردیتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کا نام لینے والے اور اسلامی مملکت کے خزانہ پر پلنے والے اب دین و مذہب اور مسجد و مدرسہ کے نہیں، بلکہ مندرو کنیسہ اور گرجا و گرٌدوارے کے محافظ ہیں۔ اب انہیں حرمین شریفین کی ایمان افزا ہواؤں اور امن و عافیت بخش جھونکوں کی نہیں، بلکہ یورپ و امریکا کی باد سر سر کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کو حرمین شریفین کو گزند پہنچانے کی کسی خبر سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، بلکہ ان کو یورپ و امریکا کے امن و امان کی فکر رہتی ہے، چنانچہ اگر کوئی دریدہ دہن مکہ و مدینہ پر حملہ کی بات کرے تو ان کو کوئی اضطراب نہیں ہوتا، لیکن اگر کوئی یورپ و امریکا کے مفادات کے خلاف بات کرے تو وہ قابل گردن زدنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مکہ و مدینہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے سے یہ کہہ کر بے اعتنائی برتی جاسکتی ہے کہ ”وہ حکومت کا نمائندہ نہیں تھا“ تو جو لوگ امریکا اور مغرب کی دریدہ دہنیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرتے ہیں، ان کو القاعدہ کا رکن کہہ کر کیوں قابل گردن زدنی سمجھا جاتا ہے؟ اور ایسے ”مجرموں“ کو امریکا کے حوالہ کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا کہا جائے کہ ہم امریکا کے غلام ہیں یا پیغمبر اسلام کے نام لیوا؟ ہمارے ہاں دین و مذہب کی زیادہ اہمیت ہے یا دنیا اور اس کے معمولی مفادات کی؟ ہم عیسائیت و یہودیت کے وفادار ہیں؟ یا اسلام کے ؟ ہمارے نزدیک امریکا اور یورپ کی عمارتوں کی زیادہ اہمیت ہے ؟یا مسجد حرام اور مسجد نبوی کی؟ ہم امریکا اور اس کی ناپاک زمین کو زیادہ قابل احترام سمجھتے ہیں؟ یا مقدس ارض حرم کو؟ اس سب سے بڑھ کر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں، اس پر ذرہ بھر نادم و شرمندہ نہیں ہیں، بلکہ دیکھا جائے تو ہم لال مسجد و مدرسہ حفصہ کے ہزاروں معصوموں کو خاک و خون میں تڑپا کر بھی خراجِ تحسین وصول کرنے کے منتظر ہیں، یہی مطلب ہے اس ارشاد نبوی کا کہ: ”اس وقت تم پر کیا گزرے گی جب تم بُرائی کو بھلائی اور بھلائی کو برائی سمجھنے لگوگے۔“
…………………………………
اس کے ساتھ ہی تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے تو اندازہ ہوگا کہ ہم ذلت و ادبار کی کس گہرائی میں گرچکے ہیں، دین و مذہب سے کس قدر دور جاچکے ہیں؟ اور ہوا و ہوس پرستی، عریانی، فحاشی، راگ باجے اور خواہش نفس کے سامنے اس قدر مجبور ہوچکے ہیں، کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو ناجائز و حرام قرار دیا تھا، ہم پوری قوت و طاقت سے ان کو حلال و جائز قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ: ”بعثت بکسر المزامیر“ (کنزالعمال ص:۲۲۶، ج:۱۵)… میں آلاتِ لہو و لعب کو توڑنے… اور گانے بجانے کو مٹانے… کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں… مگر اس کے برعکس ابنائے کفر اور ذریتِ ابلیس نے ہمیں اپنی مخصوص حکمت عملی اور عیاری سے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن اور سنت کے مقابلہ میں لاکر کھڑا کردیا اور ہم خدا کے نام سے منسوب فلم ”خدا کے لئے “ کے عنوان سے پورے دین و مذہب اور شریعت کا مذاق اڑانا شروع ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چنانچہ نئی نسل کو دین و مذہب اور علماء سے متنفر و باغی کرنے، داڑھی، ارتداد کی شرعی سزا، اسلامی لباس، مذہبی عسکریت پسندی، طالبان کی اسلام پسندی کی بُرائی، قباحت اور شناعت دلوں میں بٹھانے کے علاوہ موسیقی کی حلت، مسلم لڑکی کے غیر مسلم سے نکاح، اوباش و آوارہ زندگی، بے حیائی و بے شرمی اور خواتین کی مادر پدر آزادی پر مشتمل ایک فلم بنوائی گئی، جس کا نام سن کر ہی دانتوں پسینہ آجاتا ہے کیونکہ: ”برعکس نہندنامِ زنگی کافور“ کے مصداق جس فلم میں اللہ سے عداوت و بغاوت اور کفر و طغیان کی تعلیم دی گئی ہو، اس کا نام ”خدا کے لئے“ رکھ کر کیا نعوذباللہ! اللہ تعالیٰ کے قہر کو دعوت نہیں دی جارہی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب اور قہر کو جوش آئے اور ہم سب ہی نشانِ عبرت بن جائیں؟ اس فلم کی ویب سائٹ اور اخباری اطلاعات کے مطابق اس فلم کا پس منظر یہ ہے کہ ایک گلوکار کو اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ خدا کی برکت سے ہدایت نصیب فرمائی تو اس نے گانے بجانے اور ڈھول تماشے کی گناہ آلود زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ کر دین و شریعت کی زندگی اپنالی، جب اس نے اس غلیظ زندگی اور غلاظت بھرے ماحول سے توبہ کرکے معصیت کی جگہ طاعت، گناہ کی جگہ نیکی، بغاوت کی جگہ اطاعت ، دنیاکی جگہ آخرت، ظلم کی جگہ عدل ،ہوا و ہوس کی جگہ دین و شریعت، گمراہی کی جگہ ہدایت کواپنالیا اور ان کی دعوت و تبلیغ شروع کردی، تو ذریت ابلیس کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے، ان سے یہ برداشت نہ ہوسکا کہ ایک مسلمان راہ راست پر کیسے آگیا؟ اس پر حقیقت حال کیوں کھل گئی؟ اس نے اپنی خوبصورت آواز کو حمد و نعت اور تلاوت کلام اللہ میں استعمال کرنا کیوں شروع کردیا؟ اس نے گانے باجے اور راگ و رنگ کی مذمت کیوں شروع کردی؟ اس کے اس طرز عمل سے اس کے سینکڑوں پرستاروں نے اس غلیظ کوچہ و بازار سے کیوں منہ موڑ لیا؟ اس نے اور اس کے چاہنے والوں نے مسجد و مدرسہ کا رخ کیوں کیا؟ اس کی دیکھا دیکھی مسلم نوجوان اس کی ہمنوائی کیوں کرنے لگے؟ وہ یورپ و امریکا کی جگہ حرمین شریفینکے چکر کیوں کاٹنے لگا، اس نے نفس و شیطان کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کا دامن کیوں تھام لیا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تھا وہ دکھ اور یہ تھی وہ تکلیف اور درد جس کی وجہ سے ضلالت و گمراہی کے پجاریوں اور دین و مذہب کے غداروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لینے اور ان کو اس کا مزہ چکھانے کے لئے وہ کھیل کھیلا کہ شیطان بھی انگشت بدنداں ہوگا، شاید اس کو بھی یہ ترکیب نہ سوجھی ہوگی کہ کسی غلیظ فلم پر ”خدا کے لئے“ کاٹائٹل استعمال کیاجائے، کیا کوئی مسلمان یہ گوارا کرسکتا ہے کہ کسی زناکاری، بدکاری، عیاشی، فحاشی اور جسم فروشی کے اڈے پر ”خدا کے لئے“ کا بورڈ سجادیا جائے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو ایک ایسی فلم… جس میں احکام اسلام، شعائر اسلام اور منصوصات شرعیہ کا انکار کیا گیا ہو، جس میں غنیٰ اور موسیقی جیسی لعنت کو … جس کے بارہ میں ارشاد نبوی ہے:
”الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل۔“ (کنزالعمال، ص:۲۱۸، ج:۱۵)
… گانا باجا، دل میں اس تیزی سے نفاق پیدا کرتا ہے جس تیزی سے پانی سبزی کو اگاتا ہے… جائز و حلال باور کرانے کی کوشش کی گئی ہو، جس میں داڑھی جیسے حکم شرعی کا مذاق اڑایا گیا ہو… اس پر ”خدا کے لئے“ کا عنوان لگانا کیونکر گوارا اور برداشت ہوسکتا ہے؟ نعوذباللہ! کہیں یہ اس گھناؤنی سازش کا حصہ تو نہیں کہ آئندہ لوگ گناہ کو گناہ سمجھ کر نہیں، بلکہ نیکی سمجھ کر کیا کریں؟ کیا اس کا یہ معنی نہیں کہ آئندہ مسلمان خنزیر کے گو شت کو بکری کا گوشت سمجھ کر کھایا کریں؟ یا شراب اور پیشاب پر زمزم کا لیبل لگاکر استعمال کیا کریں؟ یا پھر نعوذباللہ! ناچ گانے کے کلب پر بیت اللہ کا بورڈ لگاکر اس کنجر خانہ کو بیت اللہ کا نام دیا جائے؟ ہائے افسوس! کہ مسلمان تقلید مغرب میں اس قدر مسخ ہوگیا ہے کہ اب وہ جھوٹ، سچ اور حق و باطل کے درمیان حائل دیوار گرانے پر تل گیا ہے، اور جو کام دنیائے کفر اور ذریت ابلیس نہ کرسکی تھی، اس کا ذمہ اس نام نہاد مسلمان نے اٹھالیا ہے؟ کیا کہا جائے ایسے لوگ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟ یا کافر؟ کیا صرف اسلامی نام رکھنے سے آدمی مسلمان بن جاتا ہے؟ دیکھا جائے تو ان فلم سازوں نے مسلمانوں کی دینی، ملی غیرت پر حملہ کیا ہے، بلاشبہ یہ فلم محض فلمی کردار نہیں ،بلکہ دین و مذہب، امانت و دیانت، شرافت و صداقت، عفت و عصمت، حمیت و غیرت، شرم و حیاء، تقویٰ و تدین،غرض تمام دینی اقدار کے خلاف کھلی بغاوت اور اعلان جنگ ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کافر و مسلمان کے باہمی نکاح کو ناجائز و حرام قرار دے کر، اس پر پابندی لگاتے ہوئے فرمایا تھا:
”ولا تنکحوا المشرکات حتی یوٴمن ولامة موٴمنة خیر من مشرکة، ولو اعجبتکم ولا تنکحوا المشرکین حتی یوٴمنوا، ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم، اولئک یدعون الی النار، واللّٰہ یدعو الی الجنة والمغفرة باذنہ ویبین آیا تہ للناس لعلہم یتذکرون۔“ (البقرہ: ۲۲۱)
ترجمہ: ”اور نکاح مت کرو مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لے آئیں اور البتہ لونڈی مسلمان بہتر ہے مشرک بی بی سے اگرچہ وہ (مشرک عورت) تم کو بھلی لگے اور نکاح نہ کرو مشرکین سے جب تک وہ ایمان نہ لے آویں اور البتہ غلام مسلمان بہتر ہے،مشرک سے اگرچہ وہ (مشرک مرد) تم کو بھلا لگے، وہ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور اللہ بلاتا ہے جنت کی اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے اور بتلاتا ہے اپنے حکم لوگوں کو تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔“ (ترجمہ شیخ الھند) مگر یہ باغیانِ دین و مذہب کہتے ہیں ہمیں یہ پابندی قبول نہیں، بلکہ نعوذباللہ مسلمان لڑکی کسی کافر و مشرک کے نکاح میں دی جاسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اس فلم میں مسلمان لڑکی کے غیر مسلم سے شادی رچانے کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے، بلکہ گویا اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ کیا یہ دین و شریعت اور قرآن و سنت سے اعلان بغاوت نہیں؟ کیا یہ کتاب اللہ کا انکار نہیں؟ کیا کتاب اللہ کا انکار کفر نہیں؟ کیا کہا جائے کہ یہ فلم کفرو ا رتداد کی اشاعت و ترویج کے لئے بنائی گئی ہے؟ یا مسلمانوں کی گرتی ساکھ بحال کرنے کے لئے؟ کیا اس فلم کے بنانے والے، اس کی اشاعت و ترویج کرنے والے مسلمان ہیں ؟ کیا سمجھا جائے کہ ایسے لوگ مسلمانوں کے ترجمان ہیں؟ یا دنیائے کفر کے ایجنٹ؟ پھر جو لوگ اس فلم کی خرید و فروخت اور دیکھنے دکھانے کے اعتبار سے اسلام دشمنوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن رہے ہیں، کیا وہ اس میں برابر کے شریک نہیں؟ ہائے افسوس! کہ مسلمان کو اس کا احساس تک نہیں رہا کہ اس کی صلاحیتیں، اس کی جان و مال کہاں خرچ ہورہا ہے؟ اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وزن اسلام دشمنوں کے پلڑے میں ڈال کر اپنی دنیا و آخرت تباہ کررہا ہے۔ اسی طرح دنیائے کفراور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ اس فلم کی اشاعت ، ترویج اور مقبولیت کے اظہار و بیان کے لئے اخبارات، رسائل اور میڈیا میں بڑے بڑے اور جہازی سائز کے اشتہارات شائع کرکے باور کراتے ہیں کہ اب تک اس فلم کو اتنا اتنا لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں۔ گویا وہ اپنے تئیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مقاصد میں اس قدر کامیاب ہوگئے ہیں؟ حالانکہ ان کم نصیبوں کو یہی نہیں معلوم کہ یہ سب کچھ ان کی مخالفت میں جارہا ہے۔ کیونکہ اس فلم کے دیکھنے والے ان لاکھوں افراد کی گمراہی و ضلالت کا وبال و گناہ بھی ان کم نصیبوں کے نامہٴ اعمال میں لکھا جارہا ہے، اس لئے کہ:
”من سن فی الاسلام سنة سیئة کان علیہ وزرہا و وزرمن عمل بہا“ (مشکوٰة ص:۳۳)
… جس نے کوئی بُرا طریقہ ایجاد کیا، اس کا وبال اور ان سب لوگوں کا وبال جنہوں نے اس کی تقلید میں اس بُرے عمل کو اپنایا، اس کی گردن پر ہوگا… اب بتلایا جائے کہ فلم بنانے، اس کی اشاعت و ترویج یا خرید و فروخت کرنے والوں کو اس پر خوش ہونا چاہئے یا روناچاہئے؟ بلاشبہ جب کوئی شخص دین و مذہب سے بیزار، فکر آخرت سے عاری، اور ہوا و ہوس کا پرستار بن جائے، تو وہ نفع نقصان کے احساس سے محروم ہوجاتا ہے، بلکہ وہ جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے تصور سے بھی ناآشنا ہوجاتا ہے، اُسے مضر و مفید بلکہ اسے زہرو تریاق میں کوئی فرق نہیں نظر آتا۔ یہی کچھ اس بدنام زمانہ فلم ”خدا کے لئے“ کے ڈائریکٹر شعیب منصور کے ساتھ ہوا ہے، چنانچہ اس فلم کی ویب سائٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف مصوری اور موسیقی کے عشق میں اتنا آگے جاچکے ہیں کہ خیر سے اب وہ عقل و دانش کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں، جیسا کہ وہ فرماتے ہیں: ”میں اس بات پر کبھی یقین نہیں کرسکتا کہ اللہ دنیا میں اپنی ہی عطا کردہ خوبصورت ترین چیزوں سے نفرت کرے گا، یعنی موسیقی اور مصوری۔“ کیا کہا جائے کہ موصوف کی عقل و خرد اور دل و دماغ درست ہیں؟ کہیں یہ صاحب ذہنی مریض تو نہیں؟ ورنہ کوئی معمولی عقل و فہم کا انسان اس کے سمجھنے سے قاصر نہیں کہ دنیا میں جتنا چیزیں ہیں، سب ہی اللہ کی پیدا کردہ اور عطا کردہ ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے جو چیزیں انسان کے لئے مفید و نفع بخش تھیں، ان کے استعمال کو حلال و جائز قرار دیا گیا، اور جو انسانوں کے لئے نقصان دہ یاضرر رساں تھیں ان کو حرام اور ناجائز قرار دیا گیا۔ اس تفصیل کے بعد موصوف کا یہ ارشاد کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ کہ: ”میں اس بات پر کبھی یقین نہیں کرسکتا کہ اللہ دنیا میں اپنی ہی عطا کردہ خوبصورت ترین چیزوں سے نفرت کرے گا، یعنی ”موسیقی اور مصوری“ کیا دنیا میں جتنا حرام و ناپاک چیزیں ہیں، ان کو اللہ کے علاوہ کسی اور نے پیدا یا عطا کیا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا یہ مشرکین مکہ کا عقیدہ نہیں تھا کہ وہ خالق خیر اور خالق شر کو دو الگ خدا مانتے تھے؟ اب بتلایا جائے کہ موصوف کا یہ ارشاد اسلام سے میل کھاتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ چلو اگر موصوف کے اس فلسفہ کو مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام چیزیں حلال و پاک ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے نفرت نہیں کرتا تو کیا ہم ان سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جتنا حرام چیزیں ہیں وہ اللہ کی عطا کردہ نہیں ہیں؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کے لئے بہت ساری چیزوں کے علاوہ بہت سے ایسے رشتے بھی بنائے ہیں جن سے نکاح شادی حرام ہے ،مثلاً ماں، بیٹی، بہن، خالہ، بھتیجی ،بھانجی وغیرہ، کیا یہ رشتے اللہ کے عطا کردہ اور خوبصورت نہیں ہیں؟ اگر کسی کی بیٹی اور بہن خوبصورت ہو تو کیا وہ خدانخواستہ اس سے شادی رچاسکتا ہے؟ اسی طرح کیا خنزیر ،کتا ،بھیڑیا اور سانپ وغیرہ اللہ کے پیدا کردہ جانور نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو کیا جناب فلم ساز صاحب ان کے بارہ میں فرمادیں گے کہ یہ سب حلال ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ہی عطاکردہ چیزوں سے نفرت نہیں کرتا۔کیا سمجھا جائے کہ موصوف ان کے حلال ہونے کے قائل ہیں؟ کیا وہ سور خور ہیں؟ کیا وہ اپنی بہن، بیٹی اور ماں سے جنسی تقاضے پورے کرنے کے قائل ہیں؟ اگر نہیں، اور یقینا نہیں، تو موسیقی اور مصوّری کے بارہ میں اس ہرزہ سرائی کا کیا معنیٰ؟ پھر یہ بات بھی محل نظر ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے موسیقی عطا فرمائی ہے“ اس لئے کہ موسیقی اللہ کی عطا نہیں،بلکہ انسان کا اپنا فعل ہے، لہٰذاجیسے یہ کہنا جائز نہیں کہ زنا اور قتل و غارت گری اللہ کی عطا کردہ ہے، اسی طرح موسیقی اور مصوری کو بھی اللہ کی عطا کہنا جہالت و بے عقلی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت اور عقل سلیم نصیب فرمائے۔آمین۔ الغرض سمجھ نہیں آتا کہ یہ دنیا کے بچاری اس ایمان شکن اور گمراہ کن فلم پراللہ کو کیا جواب دیں گے؟ کیا ان کو مرنا نہیں؟ کیا ان کو موت، آخرت اور قیامت پر ایمان نہیں؟ اگر ہے اور یقینا ہے، جیسا کہ فلم سازوں کے ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر سے وہ بھی مسلمان ہیں، تو بتلایا جائے کہ وہ اس بغاوتِ اسلام پر اللہ کے سامنے کیا جواز پیش کریں گے؟ بھلاجہاں ہر شخص کو اپنی نجات کے لالے پڑے ہوں گے، وہاں یہ لوگ اس ایمان شکن و اخلاق سوز فلم کے ذریعے گمراہ اور بے راہ ہونے والے کروڑوں انسانوں کے ایمان و عمل کو غارت کرنے کا وبال کیونکر برداشت کرسکیں گے؟ اس لیے اس فلم کو خریدنا، بیچنا،اس کی تشہیر کرنا دیکھنا اور دکھانا سب ناجائز، حرام اور گناہ کبیرہ ہے، بلکہ اندیشہ ہے کہ اس گستاخی پر ایمان نہ سلب ہوجائے، اسی طرح جن لوگوں نے یہ فلم بنائی ہے ان کو چاہئے وہ اس ایمان شکن فعل سے توبہ کریں اور بغاوت خداوندی کے اس نشان کو ختم کریں، ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بن جائیں۔ لہٰذا ہم فلم کے بنانے، بنوانے، اس کی تشہیر کرنے، سنیما ہالوں پر چلانے، دیکھنے اور خریدوفروخت کرنے والوں سے نہایت دل سوزی سے عرض کرنا چاہیں گے کہ اپنی دنیا و آخرت خراب نہ کریں، اور اس گھاٹے کے سودے سے فوراً رجوع کرلیں، ورنہ بہرحال اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
واللہ یقول الحق وہو یہدی السبیل
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 
Flag Counter