Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم1437ھ

ہ رسالہ

1 - 15
عظیم ترین مقصد

مولانا عبید اللہ خالد
	
اسلامی تعلیمات کا جوہر اگر معلوم کیا جائے تو وہ ”تقویٰ“ کے سوا کچھ اور نہیں۔ قرآنی آیات اور نبوی احادیث میں اگر کسی بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے یا پھر عبادات و احکام کی بجا آوری کا کہا گیا ہے تو اس کا مقصد اصلی ”تقویٰ“ ہے۔

تقویٰ کیا ہے؟ لغوی اعتبار سے لفظ ”تقویٰ“ کے معنی ہیں، بچنا یا ڈرنا۔ شرعی اصطلاح میں اس سے مراد گناہوں سے بچنا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے۔ یہ نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، یعنی انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے بچے۔ اللہ کی ہر نافرمانی گناہ ہے، اس لیے تقویٰ کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان خود کو گناہوں سے بچائے، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔

رمضان جو ابھی گزرا اور اس کی بازگزشت باقی ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بیان فرمایا ہے کہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ ہے۔ ایک مسلمان کو اگر کسی شے کی شدید خواہش اور کوشش کرنی چاہیے تو وہ تقویٰ کے سوا کچھ نہیں۔

تقویٰ کے تین درجے ہیں۔ اول، اسلام قبول کرکے خود کو جہنم کے دائمی عذاب سے بچانا۔ دوم، اپنے نفس کو گناہ کبیرہ سے محفوظ رکھنا اور صغیرہ گناہوں سے بھی بچنے کی حتی المقدور کوشش کرنا۔ تقویٰ کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے قلب و فکر کو اس کیفیت میں لے آئے جہاں کوئی بھی ایسا کام نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے انسان کو دور کرتا ہو۔ تقویٰ کا تیسرا درجہ تقویٰ کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ یہاں وہ کیفیات پیدا ہوتی ہیں جن کے ذریعے انسان ہر وقت اللہ کو اپنے ساتھ پاتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کی فکر اور اس کے دل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ رہتا ہے۔ تقویٰ کے اس درجے پر انسان دنیا میں رہتے ہوئے بھی اللہ کا ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے کام کاج کرتا ہے، مگر اس کا دل اللہ کی یاد میں مگن ہوتا ہے۔

ایک مسلمان کی زندگی کا حاصل تقویٰ ہے۔ عبادت کی روح تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب انسان تقویٰ کی صفت سے مالا مال ہو۔ اگر تقویٰ نہیں تو عبادت بھی نہیں، کیوں کہ عبادت کی چاشنی صرف تقویٰ ہی سے مل سکتی ہے۔ لہٰذا، جس فرد میں تقویٰ جتنا زیادہ ہوگا، اتنا ہی اسے عبادات ومعاملات کو اللہ کے حکم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق پورا کرنے میں لطف ملے گا۔

تقویٰ انسان کو نہ صرف نیکی پر کھڑا کرتا ہے، بلکہ برائی سے بھی بچاتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں کرپشن اور بے راہ روی سر چڑھ کر بول رہی ہے، اور برائی کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے، تقویٰ کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، کیوں کہ یہ تقویٰ کی قوت ہی ہے جو انسان کو کسی گناہ کا موقع ہونے کے باوجود گناہ سے روک سکتی ہے۔ یہ تقویٰ کی توانائی ہی ہے جو انسان کو آرام دہ بستر سے اٹھاکر اللہ کی عبادت کیلئے کھڑا کرتی ہے۔ یہ تقویٰ کی جرات ہی ہے کہ محض اللہ کی خوشنودی کیلئے انسان اپنی انا کی قربانی دے کر دوسروں کے حقوق کے سامنے جھک جاتا ہے۔

جو انسان اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جلد متقی بنادیتے ہیں۔ متقی انسان اگر ایک جانب اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہوتا ہے تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ اس کی عزت و منزلت انسانوں کے دلوں میں بھی ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ متقی انسان چاہے اس کے پاس ظاہری اسباب نہ ہوں، لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔

زندگی کا نصب العین اللہ کا تقویٰ بنالیجیے، آپ کی زندگی آسان بھی ہوجائے گی اور راحت رساں بھی!

Flag Counter