Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

1 - 10
فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی سازش
فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی سازش

الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی
: امریکا او ر اس کی حلیف مغربی طاقتوں کا ہمیشہ سے یہ بھیانک کردار رہا ہے کہ اپنے مفادات کو مقدم رکھا جائے۔ چنانچہ ان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے عموماً کمزور و ترقی پذیر ممالک کو اور خصوصاً مسلمانوں کو صدقہ کا بکرا بنایا ہے‘ اور مقصد براری تک ان سے ہر طرح کی … چاہے زبانی کلامی ہی کیوں نہ ہو… دوستی‘ حمایت‘ تائید اور پشت پناہی کا اظہار کیا‘ لیکن جوں ہی مقاصد پورے ہوئے ‘ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ چنانچہ کل تک جن اقوام و افراد کی ”ناز برداریاں“ کی جاتی تھیں‘ آج ان کی ”مبنی برحقیقت“ اور ”خلوص و اخلاص“ پر مشتمل پالیسیوں میں بھی انہیں سو سو نقائص نظر آنے لگے‘ جو لوگ کل تک ان کے حلیف تھے‘ آج وہی ان کے بدترین دشمن ہوگئے اور کل کے ہیرو آج کے دہشت گرد قرار پائے۔ اس پر کسی زیادہ غوروفکر کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی کسی لمبی چوڑی ورق گردانی اور تاریخ دانی کی ضرورت ہے بلکہ زمانہ قریب میں اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی‘ دور کیوں جایئے‘ یاسر عرفات‘ صدام حسین‘ آیت اللہ خمینی‘ افغانستان‘ لبنان اور پاکستان کا قضیہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ چنانچہ ایک وقت تھا کہ یاسر عرفات امریکا کی آنکھ کا تارا تھا‘ لیکن جب اس سے مقاصد پورے ہوگئے یا کوئی اُمید نہ رہی تو اسے ایسا بے نام کیا گیا کہ فرانس کے ایک ہسپتال میں خاموشی سے مرگیا یا مار دیا گیا۔ عراقی صدر صدام حسین سے جب کام نکل گیا یا اس سے کسی کام کی توقع نہ رہی تو نہ صرف عراق پر چڑھائی کردی گئی بلکہ صدر صدام حسین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا‘ اسی طرح جب امریکا کو روس سے خطرہ محسوس ہوا اور بالفعل روس نے افغانستان کے راستے گرم سمندر تک پہنچنے کی غرض سے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکا نے نہ صرف افغان قوم کی پیٹھ ٹھونکی گئی‘ بلکہ اس کی ہر قسم کی مدد کی گئی‘ جب مخلص مسلمان روس کے توسیع پسندانہ عزائم اور اس کی جارحانہ پیش قدمی روکنے میں کامیاب ہوگئے اور روس جیسی سپر طاقت مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست سے دوچار ہوگئی‘ تو امریکی اور مغربی مہروں نے افغانستان کے مسلمان زعماء کو باہم دست و گریبان کردیا۔ اس صورت حال سے بے چین ہوکر جب مخلص مسلمانوں اور طالبان نے تیرہ سالہ افغان جہاد کے فوائد و ثمرات سمیٹنے اور پندرہ لاکھ مسلمانوں کی قربانیوں اور شہداء کے خون سے لالہ زار ارض افغانستان پر اسلامی آئین نافذ کردیا تو امریکا اور مغربی قوتوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے کہ ہم نے جو کچھ سوچا تھا اس کے خلاف کیونکر ہوگیا؟ چنانچہ اس نے اپنے مقاصد کی تحصیل و تکمیل کے لئے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر افغانستان پر حملہ کردیا۔ دوسری جانب اس نے پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے اسے نہ صرف اپنا بہترین اتحادی قرار دیا‘ بلکہ ایسے تمام اکابر علماء اور زعماء جن کی آواز پر قوم اٹھ سکتی تھی‘ ان میں سے اکثر کو ایک ایک کرکے قتل کردیا گیا اور جو بچ رہے‘ ان کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا‘ اس دوران پاکستان کی ”خدمات“ کو خوب سراہا گیا۔ اسی طرح جو لوگ اسلام‘ پاکستان اور ملت اسلامیہ کے حق میں آواز اٹھاسکتے تھے یا ایسی جماعتیں اور ادارے جو اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرسکتے تھے‘ ان کے خلاف پے در پے کریک ڈاؤن کرایا گیا‘ ان کو متہم و بدنام کیا گیا اور اخبارات و میڈیا کے ذریعہ ان پر خوب تنقید کی گئی‘ افغانستان پر حملہ کرکے اگر ایشیائی مسلمانوں کو سبق سکھایا گیا تو دوسری طرف عربوں کو سبق سکھانے کے لئے عراق اور صدر صدام کی بغاوت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا‘ عراق پر حملہ‘ بغداد کو تاراج کرنے کے بعدسے اب تک عراق کے ساڑھے چھ لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ چنانچہ امریکا اور مغربی قوتوں نے یہاں بھی اپنے مقاصد کی تحصیل و تکمیل کے لئے اپنے ایجنٹوں اور وظیفہ خوروں کو استعمال کیا‘ یہی وجہ ہے کہ صدام حسین کے خلاف اس سے مذہبی اور مسلکی اختلاف رکھنے والے افراد کو استعمال کرکے ایک طرف ان کے جذبات کو تسکین پہنچائی گئی تو دوسری طرف اپنے مقاصد کی تکمیل بھی کی گئی۔ چنانچہ ٹی وی اور اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ صدر صدام کو پھانسی لگانے والے نقاب پوشوں نے صدام کو عراقی شیعہ راہ نما ”مقتدا الصدر زندہ باد “کے نعرے لگوانے کی بھی کوشش کی۔ بایں ہمہ جب امریکی مفادات کی تکمیل نہیں ہوسکی اور امریکا افغانستان و عراق میں بُری طرح پھنس گیا تو اس نے پاکستان و ایران کو اپنی شکست و ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک طرف پاکستان کو آنکھیں دکھاناشروع کردیں تو دوسری طرف ایران پر حملے کی منصوبہ بندی بھی شروع کردی ہے۔ چونکہ دنیا بھر کے مسلمان اور غریب ممالک کے علاوہ افغانستان اور عراق کے مسلمان براہ راست امریکی مظالم کا شکار ہیں‘ اس لئے اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ ایران پر حملہ کی صورت میں دنیا بھر کے تمام مسلمان بلاامتیاز مسلک و مذہب‘ امریکی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہوجائیں گے اور ایران کے خلاف امریکی جارحیت پر پاکستانی شیعہ امریکی اتحادی بننے کی صورت میں پاکستان کے لئے مشکلات نہ پیدا کریں یا ان کی ہمدردیاں ایران کے حق میں نہ ہوجائیں‘ اس لئے امریکا اور اس کی اتحادی قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کو ہوا دی جائے۔ چنانچہ اخبارات و میڈیا گواہ ہے کہ اس کی شروعات ہوچکی ہیں‘ جس کے واضح آثار و قرائن یہ ہیں کہ آج سے ۳ سال قبل شہید ہونے والے امام المجاہدین حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہید اور شہیدِ ختم نبوت حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید کے قاتل باوجود سو سو احتجاجوں کے اب تک کہیں نہیں مل پائے تھے‘ بلکہ ایسا لگتا تھا کہ ان کو زمین کھا گئی ہے یا وہ آسمان پر چلے گئے ہیں‘ چنانچہ شہداء کے متعلقین مایوس ہوکر بیٹھ گئے تھے‘ اب اچانک اور ایک دم ایک شخص ان کے قاتل کی حیثیت سے گرفتار ہوگیا اور اس نے تمام وارداتوں کا اعتراف بھی کرلیا ہے‘ اور خیر سے اس کا تعلق بھی شیعہ فرقہ سے بتلایا جارہا ہے‘ چنانچہ اس سلسلہ کی خبر ملاحظہ ہو:
”کراچی (اسٹاف رپورٹر) معروف عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی‘ مفتی جمیل ‘ مولانااعظم طارق اور ان کے ساتھیوں کے قتل میں ملوث کالعدم تنظیم کے مبینہ دہشت گرد حماد ریاض نقوی کو ملیر سٹی اسوان ٹاؤن میں اتوار کو چھاپہ مار کر گرفتار کرلیا۔ اس کے ساتھی عسکری‘ رؤف اور اسلام آباد پولیس کا سپاہی قلب عباس موقع سے فرار ہوگئے‘ اس گروہ کا سربراہ ملتان کا ایک ڈاکٹر ہے‘ ملزمان کی رہائش گاہ سے پولیس نے ایک کلاشنکوف دو ہینڈ گرنیڈ‘ ایک ٹی ٹی پستول برآمد کرلیا۔ کالعدم تنظیم سپاہ محمد سے تعلق رکھنے والے ان دہشت گردوں نے سندھ اور پنجاب میں مذہبی شخصیات کو قتل کیا۔ سی آئی ڈی کے اعلامیہ کے مطابق ایس پی سی آئی ڈی راجہ عمر خطاب اور ڈی ایس پی مظہر مشوانی کی نگرانی میں پولیس کی بھاری نفری نے ملیر سٹی اسوان ٹاؤن میں چھاپہ مارا اور وہاں سے خطرناک ملزم حماد ریاض نقوی کو گرفتار کرلیا جبکہ اس کے ساتھی عسکری‘ رؤف اور قلب عباس فرار ہوگئے۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ اس نے اپنے ساتھی عسکری‘ رؤف اور قلب عباس کے ہمراہ جمشید ٹاؤن میں ۱۸/ مئی ۲۰۰۴ء کو مولانا مفتی نظام الدین شامزئی پر حملہ کیا‘ جس سے مفتی شامزئی اور ان کا بیٹا رفیق الدین اور خیر محمد زخمی ہوگئے تھے اور ۹/اکتوبر ۲۰۰۴ء کو جمشید کوارٹرز میں ملزمان نے مولانا مفتی جمیل احمد‘ مولانا نذیر احمد تونسوی سیکریٹری انفارمیشن عالمی مجلس ختم نبوت پر حملہ کیا جس سے دونوں جاں بحق ہوگئے تھے ‘جبکہ ۲۴/ جون ۲۰۰۵ء کو پریڈی کے علاقے میں فائرنگ کرکے مذہبی اسکالر مفتی عتیق الرحمن‘ ان کے بیٹے عمار عتیق الرحمن اور مولانا ارشاد الحق کو ہلاک کردیا تھا۔ ۳۰/ جنوری ۲۰۰۵ء کو فیروز آباد تھانے کی حدود طارق روڈ پر موجود کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے مرکزی شوریٰ کے رکن اور لیگل ایڈوائزر ہارون قاسمی پر حملہ کرکے انہیں زخمی کیا اور بعدازاں انہیں ملزمان نے ہارون قاسمی کے والد اسحق قاسمی اور ان کے محافظ محمد عقیل پر حملہ کیا‘ جس سے دونوں ہلاک ہوگئے تھے۔ پی آئی بی کے علاقے پرانی سبزی منڈی کے قریب ملزمان نے فائرنگ کرکے کالعدم سپاہ صحابہ کے کارکن موٹر مکینک اختیار کو ہلاک کیا اور ۶/اکتوبر ۲۰۰۳ء کو موٹر وے پر اسلام آباد کے قریب ٹول پلازہ پر فائرنگ کرکے ملت اسلامیہ پاکستان کے امیر مولانا اعظم طارق سمیت ان کے ساتھی کو ہلاک کردیا گیا‘ جبکہ اسلام آباد پولیس نے چند روز قبل مدثر اور محمد علی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا جبکہ کانسٹیبل قلب عباس نے اعظم طارق کے قتل کے بعد اپنا تبادلہ کراچی میں کرالیا تھا۔ سی آئی ڈی کے مطابق مذہبی دہشت گردوں کے اس گروہ کا سرغنہ ملتان کا ڈاکٹر منتظر علی ہے۔ ملزمان کی گرفتاری کے لئے پولیس دیگر مقامات پر چھاپے مار رہی ہے۔“ (روزنامہ ”جنگ“ کراچی ۵/مارچ ۲۰۰۷ء)
اس کے ساتھ ہی ملتان میں د ہشت گردی کی عدالت کے جج پر خود کش حملہ اور اس واردات کے پس منظر کے طور پر یہ اطلاع کہ متاثرہ جج لشکر جھنگوی کے ملک اسحق کے مقدمہ کی سماعت کے بعد فیصلہ کرنے والے تھے‘ اسی طرح ۱۰/ مارچ ۲۰۰۷ء کی روزنامہ جنگ کراچی کی یہ خبر کہ سکھر سے ایک خود کش حملہ آور کو گرفتار کیا گیا ہے‘ جس کا تعلق لشکر جھنگوی سے ہے اور وہ سکھر میں چہلم کے جلوس پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا وغیرہ کیا ملکی امن و امان کی فضا خراب کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے مترادف نہیں ہے؟ آخر کیا وجہ تھی کہ مسلسل کئی سال تک تو شہداء کے قاتلوں سے صرف نظر کیا جاتا رہا اور اب اچانک ان کو گرفتار کرکے کیوں پیش کردیا گیا؟ اور اس نے تمام اعتراف کیونکر کرلئے؟ صرف اس لئے کہ جس طرح حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید ‘ مولانا مفتی عبدالسمیع شہیداور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے قاتلوں کو چھو ڑ دیا گیا ہے‘ انہیں بھی چھوڑ ہی دیا جائے گا‘ البتہ وقتی طور پر انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا ہے اور بس… بلاشبہ معمولی عقل و فہم کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ سارے تانے بانے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے لئے ہی ہیں‘ چنانچہ اس کا کچھ اندازہ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے:
”اسلام آباد (ایجنسیاں+ ٹی وی رپورٹ) صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ میرے لئے سب سے اہم بات پاکستان کی سلامتی اور استحکام ہے اور ہمیں امریکا سمیت کسی سے کوئی خطرہ نہیں‘ اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو بچانا چاہئے‘ ایران پر حملے سے صرف پاکستان کے لئے نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے مسائل پیدا ہوں گے اور اس سے فرقہ واریت کا مسئلہ بھی سامنے آئے گا‘ ایسی باتیں بے بنیاد ہیں کہ ہم امریکا کے آگے جھکے ہوئے ہیں…“ (روزنامہ ”جنگ“ ۷/ مارچ ۲۰۰۷ء)
ان حالات و واقعات اور آثار و قرائن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا بہادر اور اس کے وفادار ایران پر امریکی حملہ کی صورت میں پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اور امریکا حسب سابق اپنے مفادات کی تحصیل و تکمیل کے لئے ایک بار پھر مسلمانوں کو اپنے مقاصد کی قربان گاہ پر ذبح کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے شیعہ سنی زعماء کو چاہئے کہ امریکی سازش سے ہوشیار رہیں اور اس کے لئے استعمال نہ ہوں‘ ہر دو فرقوں کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ اپنے جذباتی کارکنوں کو سمجھائیں کہ وہ اس دلدل میں کودنے سے بچیں اور امریکی مفادات کی تکمیل سے گریز کریں۔ بصورت دیگر ان کی داستاں تک نہ ہوگی ‘ داستانوں میں۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمین
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 
Flag Counter