Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اکتوبر 2009

ہ رسالہ

1 - 12
اپنے نفس کی تربیت کیجئے
ایف جے،وائی(October 11, 2009)

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ:” خبردار خواہشات کو اپنے اوپر حاوی مت ہونے دینا کیونکہ ان خواہشات کا آغاز برا اور انجام بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ اگر دیکھو کہ تمہارا نفس خبردار کرنے اور ڈرانے سے قابو میں نہیں آرہا تو اسے امید اور ترغیب کے ذریعے جھکانے کی کوشش کرو کیونکہ ترغیب اور ترہیب اگر ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو نفس کمزور ہوکر جھک جاتا ہے۔“

یادرکھئے! اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کرسکتا ہے۔ چنانچہ اچھائیوں کو اختیار کرنا اور برائیوں سے بچنا ضروری ہے بقول ایک بزرگ کے کہ اچھائی اور برائی، خیروشر کے درمیان تمیز کرنا ہی انسانیت کا جوہر ہے۔ لیکن عقل کے نہاں خانے سے اس جوہر کو ابھارنے کے لیے مسلسل عمل اور جدوجہد پیہم کی ضرورت ہے۔ اس کوشش کے بغیر یہ جوہر نہیں ابھر سکتا۔ قرآن کریم نے بھی اس نفس کی تربیت کرنے پر زور دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے قد افلح من زکّٰہایقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور و قد خابَ من دسّٰہانامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبادیا یعنی فسق و فجور سے مغلوب کردیا۔

ہم جب ہر طرح کی نفس کی کشمکش سے گذر کر استقامت کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کی راہ پر گامزن ہوں گے تو ہمیں ضرور ان شاءاﷲ صراطِ مستقیم نصیب ہوگی۔ اس راہ میں مانع بہت ہیں، مشکلات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ نفس خیروشر کی کشمکش میں ہمیشہ دوچار رہتا ہے۔ برائیاں نفس انسانی میں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ اس لیے اسلام میں ایمان و عمل کی تربیت پر بھی زور دیا ہے چونکہ ایمان تو درحقیقت ایک پودا ہے۔ جب سرزمین قلب میں اس کو لگایا جاتا ہے تو اس میں پھل اس وقت لگتا ہے جب اس کی آبیاری کی جائے اس کی نگہداشت کی جائے۔ اس کا احتساب کیا جائے۔ اپنی نیتوں کا جائزہ لیا جائے کہ خوف خدا کس حد تک ہے، اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے نفس کون کون سی قربانیاں دے سکتا ہے۔

نفس کو برائیوں سے روکنے اور نیکیوں کی طرف اس کے رحجانات کو غالب بنانا اس کی تربیت کا حصہ ہے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم خود اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہیں اور اپنی نگاہوں کو اپنے نفس کے تعاقب میں ڈالتے رہیں تاکہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کاری عادت بن جائے اور گناہ اور نافرمانی کا رحجان مغلوب ہوجائے۔

اسلام کے بنیادی ارکان یعنی توحید و رسالت، نماز، روزہ، حج، زکوٰة کے احکامات پر غور کیا جائے تو ان کی فرضیت میں یہی راز پنہاں ہے کہ نفس اطاعت الٰہی کا عادی ہوجائے۔ اور تمام برائیاں دھیرے دھیرے چھوٹ جائیں اور اخلاق رذیلہ جاتے رہیں اور اخلاق حمیدہ پیدا ہوجائیں مثلاً ہربار کلمہ شریف پڑھنے سے اﷲ کی وحدانیت اور رسول اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار اور ہر نماز سے عجز و انکساری پیدا ہوجائے اور اسی طرح روزے سے ضبط نفس، مشقت اور اطاعت کی تربیت ہوجائے زکوٰة سے بخل اور حب مال کا عیب دور ہوجائے اور غرباءکی مددکا جذبہ پیدا ہو، حج سے اسلامی اخوت پیدا ہو، ان تمام عبادتوں کا باطنی مقصد نفس کی تربیت ہی ہے۔ چنانچہ ایک صحابی نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے گذارش کی یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے کہ آپ کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پیش آئے آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم نے لا الٰہ الااﷲ کہہ دیا تو اس پر استقامت اختیار کرو۔

استقامت کے ظاہر معنی تو ثابت قدمی کے ہوتے ہیں لیکن حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اﷲ نے فرمایا ہے کہ استقامت حسنِ عمل کے اس تسلسل کو کہتے ہیں جو نفس کی عادت ثانیہ اور مزاج کی اساسی خصوصیت بن جائے۔ لہٰذا نفس کو مسلسل اطاعت میں منہمک رکھنا اور جو باتیں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناپسند ہیں ان سے اس کو روکنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہنا نفس کی تربیت ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے ایمان والو! تم اپنے نفس کی حفاظت کرو، اگر تم سیدھی راہ پر ہو تو گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

بہرحال مندرجہ بالا تمام گفتگو کا حاصل یہ نکلا کہ ہر ہر مسلمان کے لیے اپنے نفس کی نگرانی بھی ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے دوسروں کی گمراہی اسے نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب کہ وہ خود اپنے نفس کا احتساب شدت سے کرتا ہو اور منکرات سے اسے بچاتا ہو بےشک اسی کوشش کا نام تربیت نفس ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نفس کا تزکیہ و تربیت کوئی خود نہیں کرسکتا جس طرح آدمی بیمار ہوجاتا ہے تو خود علاج نہیں کرسکتا کسی معالج سے علاج کراتا ہے اسی طرح نفس کے لیے ایک مزکّی کی یعنی صاحب نسبت شیخ کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے بغیر صحبت اہل اﷲ کے نفس کا تزکیہ عادہً محال ہے۔

محترم قارئین! اپنے نفس کی تربیت سے متعلق حضرت عارف باﷲ مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کی صحبت بابرکت، ان کی تعلیمات اور ان کے مواعظ کا مطالعہ نہایت ہی سودمند ہے، بندے کو اس کا بار بار تجربہ ہوا۔ اﷲ تعالیٰ حضرت شیخ دامت برکاتہم کو لمبی عمر نصیب فرمائے اور تاحیات صحتِ کاملہ و تروتازگی نصیب فرمائے، آمین۔ اور اﷲ تعالیٰ ہم سب کواپنے نفس کی حفاظت و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Flag Counter