Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن11 تا 17 جولائی 2014

ہ رسالہ

1 - 8
دو نکتے دو نتیجے
میرے سامنے دنیا کے مالدار ترین ممالک کی فہرست بھی ہے اور غریب ترین ممالک کی بھی۔ دنیا کے مالدار ترین افراد کے نام بھی ہیں اور غریب ترین ریاستوں کے نام بھی۔ تعجب کی جو بات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ دونوں طرح کی فہرستوں میں مسلمان ممالک اور افراد موجود ہیں۔ یعنی وہی مسلمان جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کا اسلام حقیقی اسلام نہیں اگر خود کا پیٹ بھرا ہو اور پڑوسی بھوکا ہو، انہی کی صورتحال یہ ہے کہ کچھ اس روئے زمین کے مالدار ترین لوگوں میں شامل ہیں اور کچھ بدحال ترین لوگوں میں، جس کا صاف مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ امیر غریب کو نہیں پوچھ رہا ورنہ غربت کی ہلاکت خیزیاں نہ رہتیں… اور غریب امیر کے لیے برکت اور رحمت کی دعائیں نہیں کررہا، ورنہ بن مانگے امیر کا دل اس کی طرف متوجہ ہوجاتا۔ اسلام کی بعض چیزیں ایسی ہیں جو اس کے برحق مذہب ہونے کی ناقابل تردید عقلی دلیل ہیں۔ مثلاً: میراث اور مالیات کے نظام کو لے لیجیے۔ دونوں میں ایک خاص تناسب ہے۔ میراث میں تین تین کی جوڑی میں چھ مقرر حصے ہیں جو ایک دوسرے کا نصف یا دُگنا ہیں۔ یعنی نیچے سے اوپر کو جائیں تو حصہ دگنا ہوتا چلا جائے گا اور اوپر سے نیچے کو آئیں تو آدھاہوتا چلا جائے گا۔ جو جتنا میت کے قریب ہوگااتنا زیادہ لے گا، جو جتنا دور ہوگا اتنا کم لے گا۔
کچھ اسی طرح کی صورتحال اسلامی مالیات کے نظام کی ہے۔ اس میں چار چیزیں ہیں۔ زکوٰۃ، نصفِ عُشر، عُشر اور خُمس۔ یعنی 2.50 فیصد، 5 فیصد، 10 فیصد اور 20 فیصد۔ تجارتی مال کی زکوٰۃ ڈھائی فیصدہے۔ نہری زمین کی 5 فیصد، بارانی کی 10 فیصد اور معدنیات کی 20 فیصد۔

اب آپ دیکھیں کہ جس چیز میںمشقت زیادہ ہے اس میں شرعی فریضے کی مقدار اتنی ہی کم ہے اور جیسے جیسے مشقت بڑھتی جائے گی، اسی تناسب سے شرعی واجب بھی کم ہوتا جائے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کمی اور زیادتی آدھے اور دگنے کے حساب سے ہوگی۔ عرب میں حساب یا ریاضی کا رواج نہ تھا۔ وہ دس انگلیوں پر ایک سے 10 ہزار تک گنتی کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث شریف کے طلبہ ’’عقد الأنامل‘‘ والی احادیث کی تشریح کے تحت جانتے ہیں۔ اس قوم میں ایک ایسا انسان جس نے کسی بھی انسان سے کچھ نہ پڑھا ہو، وہ وراثت اور مالیات کا ایسا نظام لے آئے جس میں رشتہ داری کی قرابت اور کمانے کی مشقت کا لحاظ کر کے ’’تضعیف اور تنصیف‘‘ یعنی دُگنے اور آدھے کا حیرت انگیز نظام مقرر کیا گیا ہو، یقینا ناقابل تردید عقلی دلیل اس بات کی ہے کہ یہ نظام انسان یا انسانوں کا نہیں، خالق کائنات کا بنایا ہوا ہے۔
اب دوسرے نکتے کی طرف آئیے! قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے درمیان معاشی طبقاتی فرق ہم نے خاص حکمت کے تحت قائم کیا ہے۔ دوسری طرف ربّ کائنات ہی کا حکم ہم تک پہنچایا گیا کہ اونچے طبقے کے لوگ نچلے طبقے کو مذکورہ بالا چار مقداروں میں سے کسی ایک کے مطابق مالی فرائض پہنچا یا کریں۔ ان دونوں باتوں کو ملانے سے وہ نتیجہ نکلتا ہے جس کے لیے آج کی مجلس میں آپ کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ کیا ان دونوں باتوں کا صاف مطلب یہ نہیں کہ اگر دنیا کے مالدار مسلمان اپنی اپنی دولت میں سے صرف فرض مقدار غریب مسلمانوں کو دے دیں تو عالمِ اسلام میں کوئی پسماندہ اور بدحال نہ رہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے رزق کی تقسیم میں فرق رکھا، اس نے یہ بھی حکم دیا کہ تجارت کی آمدنی میں سے ڈھائی فیصد، زراعت میں سے 5 یا 10 فیصد اور معدنیات میں سے 20 فیصد غریبوں کو دے دو، یعنی وہ جانتا ہے کہ دنیا کے مالداروں کی دولت میں سے غریبوں کو اس خاص تناسب سے دیا جائے تو کسی سے لپٹ کر مانگنے والے یا ہاتھ پھیلا پھیلا کر دہائی دینے والے نہ رہیں گے۔ دولت کی تقسیم میں توازن آجائے گا۔ سرمائے کے ارتکاز سے جنم لینے والی خرابیاں دور ہو جائیں گی اور دنیا بھوک، بیماری، جہالت اور ان سے پیدا ہونے والے جرائم سے محفوظ ہوجائے گی۔
تعجب کی بات صرف اتنی نہیں کہ د نیا کے دس بڑے مالدار اسلامی ممالک اور افراد صرف فرض مقدار ادا نہیں کررہے، بلکہ افسوس اس پر بھی ہے کہ ایک طرف غیرمسلم مالدار افراد کسی مذہبی طے شدہ تناسب کے بغیر ہی بڑھ چڑھ کر این جی اوز کو امداد دے رہے ہیں۔ دوسری طرف مالدار مسلم افراد اپنی دولت کو سونے سے مزین ہوائی جہاز، پرتعیش بحری جہاز، ہیرے جواہرات سے مزین کاروں، اسکوٹروں، پُرشکوہ رہائشی محلات بلکہ غسل گاہوں پر لگارہے ہیں۔ سلطان آف برونائی کے زیر استعمال گھڑی، موبائل، کیمرہ، نشست گاہ، آرام گاہ حتیٰ کہ بیسن اور کموڈ بھی سونے کے ہیں یا ان پر سونے کا کام کیا گیا ہے۔ دولت جو قدرت کی نعمت ہے، کا ایسا بے تحاشا ضیاع، جبکہ دنیا بھر میں مسلمان مفلوک الحال اور قابلِ رحم حالت میں سسک سسک کر جی رہے ہیں… آج کی معاصر دنیا کا وہ المیہ ہے جس میں ہمارے عروج و زوال کا اہم سبب مضمر ہے۔ سعودی شہزادہ ولید بن طلال کے پاس دنیا کا مہنگا ترین جہاز ہے۔ قطری شہزادہ حمد بن خلیفہ کے پاس دنیا کی مہنگی ترین کار اور اسکوٹر ہے۔ سلطان آف برونائی کے بیڑے میں بیسیوں انتہائی مہنگی کاریں ایسی ہیں جنہیں ابھی تک چلانے کی نوبت نہیں آئی نہ آیندہ آتی دکھائی دیتی ہے۔ گویا کروڑوں ڈالر صرف فرضی شوق پر پھونک دیے گئے ہیں۔ درحقیقت اس وقت مسلم دنیا کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، وسائل کی بلااکتساب موجودگی بلکہ کثرت ہے۔ یہ وسائل اگر ہم نے اپنے زورِ بازو سے کمائے ہوتے تو انہیں اس طرح ضائع نہ کرتے۔ یہ دوسرا بڑا فرق ہے۔ ہمارے مالدار مسلمان بھائیوں میں اور غیرمسلم مالداروں میں۔ لہٰذا نتیجے کا فرق بھی بالکل واضح ہے۔ ہمیں زمین سے اُبلتے خزانے مفت میں مل گئے، جبکہ انہیں اسی کے لیے صبح سے شام تک پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ہم انہیں طہارت گاہوں پر ضائع کررہے ہیں وہ این جی اوز کے ذریعے مخصوص مقاصد کی تکمیل پر خرچ کررہے ہیں۔
اللہ کرے ہر مسلمان اپنی حیثیت کی حد تک اپنا فرض نبھانے اور دوسروں پر رشک یا شکوہ کرنے کے بجائے جو کچھ اللہ پاک نے دیا ہے، اس میں سے اللہ کا حق نہ بھولے اور بندوں تک بھی ان کا حق بن مانگے پہنچائے۔ ماہِ رمضان کا یہ پیغام ہماری سمجھ میں آجائے تو بہت سے دلدّر دور ہوسکتے ہیں۔ متاثرین سے ہمدردی کا سچا اظہار بھی یہی ہے اور اللہ کی نعمتوں کا حقیقی شکر بھی یہی کہ ہم انفاق فی سبیل اللہ کے اس موسم میں اپنی دولت کا صحیح مصرف پہچان لیں۔  32 0 0 0 32
Flag Counter