Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 30 مئی تا 5 جون 2014

ہ رسالہ

1 - 9
انتہا پسندی کی ایک مثال
زندگی میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے انسان کو ہنسی آتے آتے رُک جاتی ہے، یا وہ جواب دیتے دیتے خاموشی بہتر سمجھتا ہے۔ایسی ہی کچھ کیفیت ہم نے اس وقت محسوس کی جب ’’اسلام پسند اتاترک‘‘ نامی کالم پڑھا۔ ہمارے ایک محترم قلم کار نے جو انقرہ سے ترکی پر کالم لکھتے ہیں، ’’اسلام پسند اتاترک‘‘ کے نام سے کالم لکھ کر صحافت کے طلبہ کے لیے ایک مثال پیش کی ہے۔ قلم کار چاہے تو دن کو رات اور سیاہ کو سفید کہنے کا محاورہ یوں سچ کر دکھاتا ہے کہ ساری دنیا کے عقلمند مل کر بھی ایسا غیرمعقول شاہکار نہ گھڑ سکیں۔ انہوں نے پہلے سیکولر ازم کی تعریف کی ہے۔ پھر اس کی رو سے اتاترک کو اسلام پسندبھی قرار دیا ہے۔ گھٹنا مارنے سے آنکھ پھوٹے یا ہرن کے پاؤں میں تیر لگے اور سر سے جا نکلے، اس پر اتنا تعجب نہیں، جتنا کسی ایک کو سیکولر مان کر اسے اسلام پسند تسلیم کروانے پر ہے۔ بھلا بتائیے! ہنسی آتے آتے کیوں نہ رُکے گی؟ اتاترک کو اسلام پسند ماننے سے بہتر ہے خود کو عقل کا دُشمن قرار د ے لیا جائے، پھر جو چاہے انسان کرتا پھرے۔
آئیے! پہلے سیکولر ازم کی تعریف جو خود اسی کالم میں درج ہے، پر نظر ڈالتے ہیں۔ پھر اس کی روشنی میں اتاترک کا سیکولر قد کاٹھ اور اس میں اسلام پسندی کا عنصر آسانی سے دریافت کیا جاسکے گا۔ ’’ہمارے مذہبی حلقوں نے سیکولر ازم کو کافرانہ نظام قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کردی، حالانکہ سیکولرازم کافرانہ نظام نہیں ہے، بلکہ مذہبی حلقے جان بوجھ کر سیکولر ازم کا ترجمہ لادین (جس کا کوئی دین نہ ہو) کرتے رہے ہیں، جبکہ

سیکولر ازم کی صحیح تعریف کچھ یوں ہے: ’’تمام مذاہب کے ساتھ رواداری، غیرجانبداری اور ملکی نظم ونسق، سماجی، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں تمام مذاہب کے اور فرقوں کو مملکت کی نظر میں مساوی حیثیت دینے ہی کا نام سیکولر ازم ہے۔‘‘ اتا ترک کے وہ کار نامے جن کی بنا پر بجا طور پر اسے ’’اسلام پسند‘‘ کہا جاسکتا ہے اور ایسا کہتے ہوئے زبان ذرا بھی نہیں لڑکھڑاتی، درج ذیل ہیں۔ان سے معلوم ہوتا ہے سیکولر ازم تمام مذاہب کے ساتھ جس روا داری، غیر جانبداری اور تمام مذاہب کو ملک میں جو مساوی حیثیت دینے کا قائل ہے۔ وہ کس قدر دل فریب بات ہے۔
اتاترک نے اقتدار کا ہُما سر پر بیٹھتے ہی سب سے پہلا جو کام کیا وہ مساجد اور مدارس پر پابندی تھی۔ کئی سو سالہ قدیم تاریخی مساجد اور مدارس پر تالے ڈال کر نماز حرام اور دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی… عربی زبان میں اذان اور نماز پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ اتاترک کی وفات کے بعد جب اسلام پسند عدنان مینڈریس نے اس پابندی کو ایک قرار داد کے ذریعے منسوخ کر کے تمام صوبوں میں یہ پیغام بھجوا دیا کہ مسلمان عربی میں اذان اور تکبیر کہہ سکتے ہیں تو وہ ترکی کی تاریخ میں جشن کا دن تھا۔ مؤذنین اذانیں دیتے ہوئے ہچکیاں لے کر روتے ہوئے پائے گئے۔ بعض مساجد میں کئی سالوں تک دو اذانیں دی جاتی رہیں۔ ایک ادا اور ایک قضا… حج و عمرے کو سرکاری طور پر ممنوع قرار دیا گیا۔ اس پر پابندی ختم کرتے کرتے ’’عدنان مینڈریس‘‘ جیسے صدر کو بھی 25 سال لگ گئے۔ 25 برس تک ترک سرزمین پر سوئے حرم جاتے ہوئے ایک لبیک نہ کہنے کا ثواب اتاترک کے ساتھ ان تمام قلم کاروں کو بھی پہنچ رہا ہے جو اسے اسلام پسند قرار دیتے ہوئے دادِ تحقیق چاہتے ہیں۔ گذشتہ سال عبداللہ گل وہ پہلا ترک حکمران تھا جو 70 سال بعد حج کے لیے جا سکا۔اس پر بھی سعودیہ میں ترکی سفیر نے وضاحت ضروری سمجھی کہ ترک رہنما کے حج کے لیے آنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ترکی سیکولر ملک نہیں ہے۔ ترکی کا قانون سیکولر ہے اور فوج اس قانون کی محافظ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں صرف ترکی کو حاصل یہ امتیاز اتاترک کی اسلام پسندی کا تحفہ ہے۔ اسلام پر مر مٹنے کا یہ رویہ تو شعائر اسلام کے ساتھ تھا۔ اب اسلامی اصطلاحات و علامات کی طرف آئیے۔


گزشتہ 20 سال میں ایک سپر پاور گئی، اس کا نظام بھی گیا۔ آج کوئی اُس کا نام لیوا نہیں ہے۔ دوسری سپر پاور بھی شکست کھاگئی ہے۔ اس کے مدمقابل ایک اور نظام وجود میں آچکا ہے۔

مردوں کے لیے ڈاڑھی، ٹوپی اور خواتین کے لیے حجاب کو قابلِ دست اندازی پولیس جرائم قرار دیے گئے۔ اس فرمان میں جو رواداری اور غیر جانبداری کی روح کارفرما ہے، وہ ہر سیکولر ازم کے دعوائے مساوات کو شرمانے کے لیے کافی ہے… ایک بڑا کارنامہ جس کا ذکر ہمارے ممدوح کالم نگار نے بڑی شدو مد سے کیا ہے، یہ کہ مذہبی امور کا محکمہ قائم کیا گیا۔ اس محکمے کا کام یہ تھا مذہب پسند لوگوں کی کڑی نگرانی کرے۔ اگر کسی کی جیب سے کوئی عربی دعا یا اوقاتِ صلوٰۃ کا نقشہ نہیں، صرف اسلامی قمری تقویم نکل آئے تو اسے قید و بند کی ان صعوبتوں سے گذارا جائے جو اسے آیندہ اس حرکت سے سختی سے باز رکھ سکیں… ایک ہمیشہ کے لیے سیئہ جاریہ بن جانے والا کارنامہ جسے ترک قوم پرست بھی ترک سیکولروں کے ماتھے کا داغ قرار دیتے ہیں۔ یہ تھا کہ ترکی زبان سے عربی الفاظ ختم کرکے متبادل الفاظ شامل کرنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ جس کی سفارشات پر عمل ہر فرد کے لیے لازم تھا۔ جب ملکی تعلیم میں تمام مذاہب سے یکسا سلوک کا یہ عمل مکمل ہوا تو اگلے اقدام کے طور پر ترکی زبان جو عربی ،فارسی، اردورسم الخط کے طور پر دائیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھی۔ اس کو بائیں ہاتھ سے انگریزی حروف میں رومن طرز پر لکھنے کا لازمی حکم دے کر اسے بالجبر نافذ کروایا گیا۔ کسی فرقے کو کسی پر برتری نہ دینے کی اس شاندار مثال نے ترکی کی تمام نئی نسل کو ترک تاریخ ، ترک ادب اور ترک تہذیب سے کاٹ ڈالا۔ وہ آج تک اپنے قابلِ فخر ماضی سے کٹی ہوئی ہے۔اس کا جمہوریت کی پرستش کرنا اور اسلامی خلافت و سلطنت سے پوری دنیا کو محروم کرنا شاید وہ خوبی ہے جس کی بنا پر سیکولرازم کے گن گانے والے قلم کار اور ان کی سرپرست اور ’’برادری‘‘ اسے پہلے اتاترک (بابائے ترک)کہلواتی تھی۔ اب ’’اسلام پسند اتاترک‘‘ کہلواتی ہے۔
محترم کالم نگار نے لکھا ہے : ’’اتاترک کی مذہبِ اسلام اور قرآن کریم سے محبت کا اندازہ ان کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے: ’’قرآن کریم کی تلاوت سن کر طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے جسم میں نئی روح پھونک دی گئی ہو۔‘‘ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا قرآن کریم سے یہ وہ محبت تھی جس کی بنا پر اتاترک نے مصحف شریف کو (نعوذ باللہ)شیخ الاسلام کے سر پر اس وقت دے مارا جب وہ اس سے ان اقدامات پر بات کرنے آئے تھے جو مذہب کی یکسر نفی کے مترادف تھے۔ قرآن کریم سے محبت اس کی تلاوت سے نئی روح حاصل کرنا اور قرآن کی طباعت پر پابندی کے ساتھ اس کی زبان سے اس قدربیزاری کہ اس کی زبان والے الفاظ کو چن چن کر ترکی سے نکال دیا جائے، تاکہ ترک بچے عربی یا قرآن کریم پڑھ ہی نہ سکیں، اس اسلام پسندی کی کوئی مثال پوری روئے زمین کے سیکولر پسند مل کر بھی تلاش نہ کرسکیں گے ۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اتاترک انتہا پسندی کے سخت خلاف تھے۔ خداجانے انتہا پسندی کا مطلب کیا ہے؟ اسلامی احکامات، اسلامی اصطلاحات، اسلامی علامات کے بعد اتاترک نے ہر اس چیز کو مٹانے کی کوشش کی جس پر مذہب کا کوئی عکس بھی پڑتا تھا۔ وہ دارالحکومت کو استنبول سے… جو مسجدوں کا شہر کہلاتا ہے… منتقل کرکے انقرہ لے گیا۔ وہاں مساجد کی تعمیر پر پابندی لگادی۔ یہ انتہا پسندی نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ تاریخ کے کس کس حرف کو جھٹلائیں گے؟ لطف تو تب آیا جب اتاترک کی وفات کے بعد اس کی قبر کے عین سامنے ’’عدنان مینڈریس‘‘ نے نئی مسجد تعمیر کرکے کفارہ دینے کی کوشش کی۔ بہر حال! کئی بے مثل کارنامے ایسے ہیں جو اس کی متانت ،اعتدال پسندی، رواداری، حب الوطنی کے سارے بھرم کھول دیتے ہیں۔
آپ کو اس کے ان کارناموں کے حوالے سے آخری تبصرہ پڑھ کر بہت مایوسی ہوگی، لیکن کیا کریں کہ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ کامران رعد اپنی معرکۃ الآرا کتاب’’فری مسنری اور دجال‘‘ میںلکھتے ہیں: ’’مصطفی کمال اتاترک نوجوان ترک تنظیم کا لیڈر اور جدید ترک ریاست کا بانی 1923ء سے اپنی موت 1938ء تک صدر رہا۔ اتاترک ایک اطالوی لاج کا رکن Macedonia Resorta E Veritas ایک فری میسن اور ترکش لاج کا گرینڈ ماسٹر تھا۔‘‘(ص:212 )
اس کے ثبوت کے لیے امیر عبدالقادر جزائری جو فری مسنری کی فرانسیسی لاج کا رکن رہا تھا، کے ساتھ موازنے کی ضرورت نہیں،’’گیلری آف فیمس فری میسنز‘‘ پر ایک نظر ڈالنا کافی ہے۔ اس میں اتاترک کا نام اس کارنامے پر درج ہے کہ اس نے اسلامی طرز حکومت ’’خلافت‘‘ کو ختم کرکے اس پر پابندی لگائی۔ خلیفۃ المسلمین کے تسلط سے فلسطین کو چھڑوا کر قوم یہود کا ناجائز تسلط ممکن بنادیا۔ نیز خلافت کے ادارے اور خلیفۃ المسلمین کے خاندان کو ایسا منتشر کیا کہ کبھی دوبارہ قائم یا یکجا نہ ہوسکیں۔اس کی جگہ ایسا مستقل نظام نافذکیا جو واپس اسلام یا اسلام کے واحد حکمرانی نظام کی طرف نہ جانے دے۔ اتاترک کی اسلام پسندی کی اس سے بڑی شہادت شاید تلاش نہ کی جاسکے۔کالم کا آخری پیرا بڑا دلچسپ ہے جس میں فرمایا گیا ہے : ’’اتاترک نے 7 فروری 1923ء میں پاشا جامع مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے اسلام کو دنیا کا مثالی مذہب قرار دے کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام رقم کرلیا۔ کیا اس سے بہتر اسلام پسندی کی کوئی مثال ہوسکتی ہے؟‘‘
اگر اسلام کو مثالی مذہب قرار دینے سے تاریخ میں اسلام پسند رہنما کے طور پر نام درج ہوسکتا ہے تو جارج برنارڈشا کو اسلام پسند ماننے میں کیا تامل ہے؟ وہ بھی تو یہی کہتا تھا کہ اسلام سب سے بہترین مذہب ہے، البتہ اسلام کا قائل ہونے کے باوجود اس نے مسلمانوں سے بیزاری کا اظہار کیا تھا۔ اتاترک نے تو اسلام کے ہر ہر نشان سے بیزاری دکھاتے ہوئے اسے مٹانے کی بھر پور کوشش کی۔ اس دوغلے کردار کا نام سیکولرازم ہے تو ہمیں اعتراض نہیں، مگر خدارا! اسے اسلام پسندی کہتے ہوئے کچھ تو خیال کریں۔ کہیں فتح اللہ گولن اور ہارون یحییٰ… دونوں حضرات ترکی سے تعلق رکھتے ہیں… جیسے نام نہاد اسلام پسند سیکولر سن لیں تو وہ بھی اس پر اسلام پسندی کے لفظ کی توہینِ عرفی کا دعویٰ نہ کردیں۔نجانے حقائق سے 180 درجے منحرف اس طرح کے کالم لکھے کیوں جاتے ہیں؟ ایک بڑے اخبار کے مدیران گرامی کی نظر سے گذرنے کے باوجود بھی چھاپے کیوں جاتے ہیں؟ جس شخص کو بعض محققین ’’رونمہ‘‘ نسل کا یہودی قرار دیتے ہیں… یہ لوگ اندر سے یہودی ہوتے ہوئے موقع کے مطابق کوئی بھی دین قبول کرلیتے تھے… اسے خالص اسلام پسند قرار دینا اور تمام دوسرے لکھنے والوں کو غلط قرار دینا ، ماضی قریب کی مسلّمہ تاریخ کو یکسر رد کردینا، کالم نگاری کی دنیا میں کن رویّوں کو جنم دے گا؟ اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ انتہا پسندی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ لکھنے والے اور لکھے کو چھاپنے والے اگر اس کا خیال نہ رکھیںگے تو معاشرہ مزید انتہا پسندی کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔
Flag Counter